جی ہاں ! یہ ہمارے مسلم معاشرہ کی خصوصیات ہیں !!
کبھی عقلی طور سے سوچا جائے تو گلوبل ولیج میں یہ کچھ عامیانہ سی حرکت نظر آتی ہے۔ اور اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ ناصحانہ انداز صرف مسلمانوں میں ہی کیوں؟ جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ پہلے خود اپنے اعمال درست کئے جائیں پھر دوسروں کو نصیحت کی جائے جیسا کہ آیتِ ربانی ہے :
مگر ۔۔۔۔۔۔
کیا یہ "شرط" ضروری ہے کہ : پہلے خود کی اصلاح کر لی جائے اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ کی جائے؟
اگر دوسروں کی اصلاح کے لیے ایسی شرط کا پورا کرنا پہلے لازم قرار دے دیا جائے تو ۔۔۔۔۔ تو پھر ہوگا یہ کہ ہم کسی کو بھی "فریضۂ احتساب" ادا کرنے والا نہ پائیں گے اور اس طرح اسلام کا ایک عظیم فریضہ "امر بالمعروف و نھی عن المنکر" معطل ہو کر رہ جائے گا !!
علمائے امت نے اس بات کو نہایت واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔
اگر کوئی شخص اس وقت تک نیکی کا حکم نہ دے ، اور برائی سے نہ روکے ، جب تک خود اس میں کوئی (برائی) نہ رہے ، تو (پھر تو) کوئی شخص نیکی کا حکم نہ دے سکے گا اور برائی سے نہ روک سکے گا۔
امام مالک (رحمة اللہ علیہ) قولِ بالا پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اور انہوں (سعید بن جبیر) نے سچ کہا ، وہ کون ہے جس میں کوئی چیز (خرابی) نہیں؟"
بحوالہ : تفسیر قرطبی ، آیت : البقرہ-44 // آن لائن ربط
اپنے ساتھیوں کو نصیحت کیجئے۔
مطرف بن عبداللہ (رحمة اللہ علیہ) نے جواباً کہا :
میں ڈرتا ہوں کہ وہ بات کہہ نہ دوں جس کو میں خود نہیں کرتا۔
یہ سن کر حضرت حسن (رحمة اللہ علیہ) کہنے لگے :
اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے۔ ہم میں کون ایسا ہے جو وہ (سب کچھ) کرتا ہے ، جو وہ کہتا ہے؟ شیطان اسی بات کے ساتھ اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے ، (تاکہ) پھر کوئی نیکی کا حکم نہ دے اور نہ ہی برائی سے روکے۔
بحوالہ : تفسیر قرطبی ، آیت : البقرہ-44 // آن لائن ربط
امام طبری علیہ الرحمۃ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"نیکی کا حکم وہی دے ، جس میں کوئی غلطی نہ ہو"
اگر کہنے والے کا مقصود یہ ہے کہ 'یہ بہترین صورت ہے' تو یہ عمدہ (بات) ہے۔
بصورت دیگر اس فریضہ کو ادا کرنے والے کسی دوسرے شخص کے موجود نہ ہونے کی صورت میں نیکی کے حکم دینے کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
بحوالہ : فتح الباری شرح بخاری ، باب الفتنة التي تموج كموج البحر // آن لائن ربط
امام ابوبکر الرازی الجصاص علیہ الرحمة فرماتے ہیں :
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ نماز کا ترک کرنا ، انسان کے روزوں اور دوسری عبادات کے ترک کرنے کے لیے باعثِ جواز نہیں بن سکتا۔ اسی طرح جو شخص تمام نیکیاں بجا نہیں لا سکتا ، اور تمام برائیوں سے اجتناب نہیں کر سکتا ، اس پر سے بھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا واجب ساقط نہیں ہوتا۔
بحوالہ : احکام القرآن ، امام ابی بکر الجصاص // آن لائن ربط
اور اسی بات کو امام نووی علیہ الرحمۃ ، ایک دوسرے انداز سے واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
پس اس پر دو چیزیں واجب ہیں :
1۔ اپنے نفس کو (نیکی کا) حکم دے اور (برائی سے) روکے
2۔ دوسروں کو (نیکی کا) حکم دے اور (برائی سے) روکے
اور اگر اس نے ایک واجب میں کوتاہی کی ، تو اس کے لیے دوسرے واجب میں غفلت برتنا کیسے جائز ہو گیا؟
بحوالہ : عون المعبود شرح سنن أبي داود - كِتَاب الْمَلَاحِمِ // آن لائن ربط
بےشک یہ بات درست نہیں کہ خود سراسر بےعمل ہو کر دوسروں کو نصیحتیں کرتے جائیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ "امر بالمعروف و نھی عن المنکر" کا فریضہ اسلیے چھوڑ دیا جائے کہ خود ہم "بےعمل" ہیں۔
سورہ البقرہ کی بالا آیت:44 کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
بحوالہ : تفسیر ابن کثیر ، آیت : البقرہ-44 // آن لائن ربط
اسی طرح امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
بحوالہ : تفسیر قرطبی ، آیت : البقرہ-44 // آن لائن ربط
کم سے کم ہمارا معاشرہ اس قدر تو زندہ ہے کہ لوگ بےعمل سہی مگر امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا ہی کچھ خیال کر لیتے ہیں۔ اگر یہ بھی باقی نہ رہے تو پھر وہی ہوگا جس کی طرف حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ :
نہایت عمدہ موضوع ہے لیکن میرے خیال میں یہاں دو چیزیں زیر بحث آئی ہیں ایک اخلاقی اصول اور دوسرا واجب.
ReplyDeleteدین کا ، عقل کا اور اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ آپ اس چیز کی تبلیغ نہ کریں جو خود آپکے عمل میں نہ ہو. لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ آدمی مطمئن ہو کر بیٹھہ جائے. کوشش کر کے اس راہ پر قدم رکھے اور پھر اسکی نصیحت لوگوں کو کرے. اسکی مثال ہمیں اسوہ حسنہ میں ملتی ہے کہ جب ایک عورت نبی کریم صلی الله علیھ وسلم کے پاس آئی اور درخواست کی کے آپ صلی الله علیھ وسلم میرے بیٹے کو نصیحت کریں کہ یہ گڑ نہ کھائے. آپ صلی الله علیھ وسلم نے اس عورت کو دوسسرے دن بلایا اور پھر اسکے بیٹے کو نصیحت کی. وجہ اسکی یہ تھی کے اس دن نبی کریم صلی الله علیھ وسلم نے خود گڑ کھایا ہوا تھا.
میرا خیال ہے کہ جب تک آپ خود کسی فعل کے عامل نہ ہوں تب تک اس فعل کی نصیحت لوگوں کو نہ کریں کیونکہ اول تو آپ کے قول میں وہ اخلاقی قوت نہیں ہوگی جو ایک نصیحت کو اثر پذیر بناتی ہے اور دوسرے اسکا منفی رد عمل ہونے کے قوی امکانات ہوں گے. الله سبحانه تعالیٰ سب کو عمل کرنے اور اور اسکی نصیحت کرنے کی توفیق اتا فرمائے. آمین
آپ کی باتیں گو اچھی سہی مگر معذرت کہ میرا ان سے اتفاق ممکن نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میرے مطالعے میں ائمہ دین کی جو تشریحات ہیں اس کے مطابق یہ نظریہ درست نہیں کہ : آپ اس چیز کی تبلیغ نہ کریں جو خود آپکے عمل میں نہ ہو۔
ReplyDeleteآپ نے اس نظریے کی دلیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب جو گڑ والا واقعہ بتایا ہے میرے علم کے مطابق یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
ان شاءاللہ کبھی موقع ملے تو اس موضوع پر مزید لکھوں گا۔ ویسے آپ کا شکریہ کہ آپ نے اس تحریر کو اپنے موقر تبصرہ سے نوازا۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ReplyDeleteہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توقیر
اقبال
@ عنیقہ ناز
ReplyDeleteکم سے کم مجھے تو علم نہیں ہے کہ علامہ اقبال علیہ الرحمۃ نے اس شعر کے ذریعہ ائمہ دین رحمہم اللہ کو متہم کیا ہو یا ان کی تحقیر کی ہو۔
معروف تابعی حضرت سعید بن جبیر ، حضرت حسن بصری علیہم الرحمۃ اور معروف مفسرین امام طبری ، امام ابن کثیر ، امام قرطبی ، امام الرازی الجصاص رحمۃ اللہ علیہم ۔۔۔۔ کی جانب سے کی گئی کسی آیت / آیات کی تشریح اگر ہمیں "غیر صحیح" نظر آئے تو چاہئے کہ "صحیح تشریح" کی تلاش کریں اور اسے سامنے لائیں۔