قرآن میں امت مسلمہ کو "خیر الامۃ" کا لقب دیا گیا ہے اور اس کے ذمہ "امر بالمعروف و نھی عن المنکر" کا عظیم الشان فرض عائد کیا گیا ہے ، قطع نظر اس کے کہ کون مسلمان عمل والا ہے اور کون بےعمل؟ "امر بالمعروف و نھی عن المنکر" کی ذمہ داری دونوں طبقوں پر برابر عائد ہے۔
بےشک یہ بات درست نہیں کہ خود سراسر بےعمل ہو کر دوسروں کو نصیحتیں کرتے جائیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ "امر بالمعروف و نھی عن المنکر" کا فریضہ اسلیے چھوڑ دیا جائے کہ خود ہم "بےعمل" ہیں۔
ویسے تو میں نے اس موضوع پر کچھ عرصہ قبل ایک تحریر یوں پیش کی تھی :
نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنا ۔۔۔؟
اس کے مطالعے کا اعادہ بہتر ہوگا۔
علم و عمل میں نمایاں فرق اور اس جیسی منافقت پر یہ ایک بہترین اقتباس ہے :
حضرت حسن بصری، تاریخ اسلام کی ایک بڑی شخصیت اکثر اپنے نفس پہ خفا ہوتے اور اپنے آپکو جھڑک کر کہتے حسن بصری، تو پرہیز گاروں اور اطاعت گذاروں جیسی باتیں کرتا ہے مگر تیرے کام تو جھوٹوں ، منافقوں اور دکھاوا کرنے والوں کے سے ہیں۔ سن لے اور خوب اچھی طرح سن لے کہ یہ اللہ سے محبت رکھنے والوں کی صفت نہیں کہ وہ سراپا اخلاص اور تمام تر ایثار نہ ہوں۔
لیکن ۔۔۔۔۔
اس اقتباس سے یہ ہرگز بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ اگر کوئی بےعمل ہے تو اس پر سے "امر بالمعروف و نھی عن المنکر" کا فریضہ ساقط ہو جائے گا۔ اگر کوئی شرابی یا جواری ہو تو کیا ہم اس کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن کی اس آیت کو نہ تو خود ہرگز بھی پڑھے اور نہ دوسروں کو پڑھ کر ہی سنائے :
بات اگر حسن بصری رحمۃ اللہ کی نکلی ہے ہے تو یہی حسن بصری کہتے ہیں کہ :
ہم میں کون ایسا ہے جو وہ (سب کچھ) کرتا ہے ، جو وہ کہتا ہے؟ شیطان اسی بات کے ساتھ اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے ، (تاکہ) پھر کوئی نیکی کا حکم نہ دے اور نہ ہی برائی سے روکے۔
حسن بصری نے یہ کیوں کہا ؟ تفسیر قرطبی (بہ تفسیر آیت : البقرہ-44) میں یہاں یہ واقعہ یوں درج ہے کہ ۔۔۔۔
حضرت حسن (رحمة اللہ علیہ) نے مطرف بن عبداللہ (رحمة اللہ علیہ) سے کہا: "اپنے ساتھیوں کو نصیحت کیجئے"۔
مطرف بن عبداللہ (رحمة اللہ علیہ) نے جواباً کہا : "میں ڈرتا ہوں کہ وہ بات کہہ نہ دوں جس کو میں خود نہیں کرتا"۔
یہ سن کر حضرت حسن (رحمة اللہ علیہ) کہنے لگے : "اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے۔ ہم میں کون ایسا ہے جو وہ (سب کچھ) کرتا ہے ، جو وہ کہتا ہے؟ شیطان اسی بات کے ساتھ اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے ، (تاکہ) پھر کوئی نیکی کا حکم نہ دے اور نہ ہی برائی سے روکے"۔
ہمارے ساتھی بلاگر ڈاکٹر جواد نے اپنے ایک تبصرے میں یہ بات بالکل درست لکھی ہے کہ :
جو چیز آپکو بری لگ رہی ہے وہ رد عمل ہے جو قرآن و سنت کے خلاف کی جانے والی بات پر ہوتا ہے اور خاص طور پر اس وقت جب یہ بات اصلاح کے روپ میں کی جائے۔
مجھے نہیں معلوم کہ جب بھی قرآن و سنت کے حوالے سے کوئی اچھی بات کہی جاتی ہے تو لوگ اس کا رخ بدل کر پاکستان یا عالَمِ اسلام کے مسلمانوں کی دگرگوں حالاتِ زار کی طرف کیوں موڑ دیتے ہیں؟ کیا لوگوں کے حالات خراب ہوں تو اچھی بات کہنا روک دینا چاہئے اور بری باتوں سے منع کرنا ختم کر دینا چاہئے؟
اس موضوع پر امام ابوبکر الرازی الجصاص علیہ الرحمة نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ :
(نیکی کا حکم دینے کے متعلق) لازم ہے کہ نیک اور فاسق پر اس کے واجب ہونے کے بارے میں کچھ فرق نہ ہو ، (بلکہ اس کا ادا کرنا دونوں پر واجب ہے) کیونکہ انسان کے بعض واجبات کے چھوڑنے سے دوسرے واجبات کا چھوڑنا لازم نہیں آتا !
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ نماز کا ترک کرنا ، انسان کے روزوں اور دوسری عبادات کے ترک کرنے کے لیے باعثِ جواز نہیں بن سکتا۔ اسی طرح جو شخص تمام نیکیاں بجا نہیں لا سکتا ، اور تمام برائیوں سے اجتناب نہیں کر سکتا ، اس پر سے بھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا واجب ساقط نہیں ہوتا۔
بحوالہ : احکام القرآن ، امام ابی بکر الجصاص // آن لائن ربط
سبحان اللہ۔۔۔
ReplyDeleteہم مے عملوں کا مقصد سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بہت بہت شکریہ۔۔۔
سبحان اللہ۔۔۔
ReplyDeleteہم بے عملوں کا مقصد سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بہت بہت شکریہ۔۔۔
اور یہ بات تو حدیث سے بھی ثابت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا مفہوم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ تم برائی سے روکو اور اچھائی کا حکم کرو چاہے خود اس برائی میں مبتلا ہو اور چاہے خود وہ اچھے کام نہیں کرتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔ مگر تمھارے اس عمل سے ان شاءاللہ اللہ باک تم کو خود اس برائی سے بچا لے گا اور اچھے کام کی توفیق دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا حوالہ ان شاءاللہ جلد ہی پیش کرونگا کہ بہت سے لوگوں کو حوالاجات درکار ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ تحریر بے شک ایک اچھی کاوش ہے ۔۔ جزاک اللہ
ReplyDeleteعالم با عمل
ReplyDeleteجسم فروشى كے لئےمشہورپيرس كى گلى رو دىسينٹ ڈينى پر اگر اپ چلتے جا'ئيں تو اسى گلى كانام فوبر سينٹ ڈينى ەو جاتا ەے ـ اس گلى ميں بەت سے پاكستانى ريسٹورينٹ اور كريانے كى دوكانيں ەيں ـ
اسى گلى ميں مساجد اور پاكستانيوں كى مل بيٹهنےكى جگهيں بهي ەيں ـ يەيں ايك جگه كل قيصر كے ساتهـ بيٹها ەوا تها
اور
بات چل نكلى عالم با عمل كي ڈيفينيشن پر عالم كيا ەے؟؟
جو كسى چيز كا علم ركهتا ەووه چيز فزكس كمسٹرى بيالوجى اسٹرو نومى
جغرافيه تاريخ مذاەب لكڑى كي چيزيں بنانا بال كاٹنا برتن بنانا يا فن تقرير جيسا كوئى بهى علم ەو سكتا ەے ـ
عمل پريكٹيكل اكسپائريمنٹ كيا ەے؟
آپنے علم پر عملى تحقيق ـ چيزوں كو ايك محقق كى طرح تجربات سے پركهناەى ميريے خيال ميں عمل ەے ـ
جس طرح سائنس دان ليباٹريوں ميں سائنس كى آپنى متعلقه شاخ پر تجربات كرتے رەتے اور جس طرح كاريگر آپنے كاموں ميں نت نئے ڈزاين متعارف كرواتے رەتے ەيں ـ
جو سائنس دان ليباٹريوں ميں تجربات چهوڑ ديتے ەيں وه فيكٹريوں ميں كاريگر بن كر ره جاتے ەيں اور جو كاريگر تجربات چهوڑ ديتے ەيں وه صرف مزدور بن كر ره جاتے ەيں ـ
پاكستان ميں عالم فن تقرير كا علم ركهنے والے كو كەتے ەيں يعنى كه گفتار كے غازى كوـ عام طور پر يه عالم ممبر يا كرسى پر بيٹهـ كر اپنى تقرير سے ەتهيلى پر سرسوں جماتے هيں ـ يه واحد علم ەے جس كے عالم خود ەر فن مولا ثابت كرنے كى كوشش كرتے ەيں ـ
""جيك آف آل كائينڈ ماسٹر آف نن""اردوميں اس كا ترجمعه ەے ەر فن مولا ادمى كسي بهى كام پر عبور نەيں ركهتاــ پاكستان ميں فن تقرير كے بەت سے ماەرين خود كو ەر فن مولاكے طور پر تو منوا چكے ەيں
اس لئيے اب ضرورت ەے لوگوں يه بتانے كى كه ەر فن مولاكسى
بهى فنكامولا نەيں ەوتا ــ مثال كے طور پر جب يه كەتے ەيں كه يورپ ميں اسلام تيزى سے پهيل رها هے تويورپ ميں رهنے والا خاور جانتا هے كه اس علم كے پيچهے تحقيق كا تجربه شامل نەيں ەے ــ
كيونكه خاور ديكه رەا ەے كه اسلام نەيں مسلمان ملكوں كے مسلمان مەاجرين يورپ ميں بڑه رهے ەيں
خود جن ميں بهى اسلام كم ەےــ
لارنس اف عربيه نام كى فلم ميں ايك عربى شەزاده لارنس كو كەتا ەے كه گريٹ برٹن (برطابيه عظمى)اس لئے گريٹ ەے كه برطانيه كے پاس توپيں ەيں
تو
لارنس اس كے جواب ميں كەتا هے كه نەيں برطانيه آپنے ڈسپلن كىوجه سے گريٹ ەے ــ
اور يه ايك حقيقت ەےــ يه ايك ملك كى مثال ەےمگر ڈسپلن كسى گهرانے يا فرد كو بهى عظيم بناتاەےــ
كيا آپ ايك عالم ەيں ؟؟كياآپ اپنے علم ميں تحقيق سےنئى نئى جەتيں تلاش كرتے ەيں؟؟اگر س كا جواب ەاں ەے تو اپ عالم با عمل ەيں ــ
اور اگر اپ نے كچهـ ايات كو پڑهنے كا علم حاصل كر كے اس كو علم اور اس كى مسلسل تقرار(ورد)كو عمل سمج كر خود كوعالم با عمل سمجتے ەيں تو آپ مغالطے كا شكار ەيں ـ
دلائل کا وزن اپنی جگه ....مگر میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں نماز نہیں پڑھتا تو میں کس طرح سے کسی کو نماز کی تلقین کر سکتا ہوں ؟
ReplyDeleteآپ نے علم کے حوالے سے بڑے اچھے طريقے سے بات کی ہے ۔ اللہ جزائے خير دے
ReplyDeleteعاملِ کامل بن جانا اگر ناممکن نہيں تو بہت مُشکل ضرور ہے ۔ اللہ کا حُکم اٹل ہے کہ بُرائی کو روکا اور اچھائی کی تلقين کی جائے ۔ اور يہ تبليغ ہی سے ہوتا ہے ۔ دُشواری اور انحراف اُس وقت پيدا ہوتا ہے جب ہم دين کو دنيا سے عليحدہ کر ديتے ہيں جو کہ غير فطری عمل ہے
بات کرتے ہيں دنياداری طريقہ سے ۔ ايک استاذ ہميں کالج ميں علمِ کيمياء پڑھاتے ہيں ۔ ہم جو کچھ اُن سے سيکھتے ہيں اُسے اٹل سمجھتے ہيں باوجويکہ ہم نہيں جانتے کہ خود اُستاذ کا اس اصول پر يقين ہے يا نہيں جو اُنہوں نے ہميں بتايا ہے ۔ جب بات دين کی آتی ہے تو تبليغ کرنے والے کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے سوال صيغہ غائب پر کيا جاتا ہے ۔ کيا يہ بيوقوفی پر دلالت نہيں ہے ؟
ہاں يہ درست ہے کہ انسان جو بات کہے پہلے خود اُس پر عمل کرے ليکن اس کا يہ مطلب نہيں کہ مبلغ کی اچھی بات کو اس کے ذاتی کردار کی وجہ سے ٹھُکرا ديا جائے جبکہ ہم اپنی عام زندگی ميں ايک بدکردار شخص کی اچھی بات کو بھی قبول کر ليتے ہيں
dr sahab ! aap ki bat durust hey, lakin aik pehloo aur dekhiey, aik ferd cigrate ya kisi bhi nashah awar sheh ka aadi hey, kia woh doosron ko mana ker sakta hey keh woh is sheh sey door rahen ? kia waqie nasihat kerney sey pehley us ko khud woh sheh chorni chahiey, lakin, ager woh nahin chor pa raha tau kia karey, doosron ko is sheh sey baz rehney ki talqeen karey ya na karey.
ReplyDeleteAhmer
تو پھر سیاستدانوں بے چاروں کا کیا قسور ہے کہ آپ سب انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ ان کا قصور شاید یہ ہے کہ وہ یہ کام مذہب کے نام پہ نہیں کرتے۔ اگر مذہب کے نام کا تڑکا لگا دیں تو آپ کے نزدیک وہ بھی بالکل درست ہونگے۔ پھر انسانی معاشروں کی خرابی کی ذمہ داری کس پہ ڈالی جائے گی۔
ReplyDeleteوہ شخص جو ذرا موقع پا کر کسی خاتون کے ساتھ کسی بھی قسم کے عمل سے نہیں گھبراتا وہ بھی کھڑآ پردے اور اسکی اہمیت پہ بات کرتا ہے۔
میں بھی یہی کروں تو آپکو کیسا لگے گا؟ یعنی ایک طرف تو بیٹھ کر یہ کہوں کہ مجھے ساڑھی پہننا پسند ہے اور دوسری طرف یہ تقریر جھاڑوں کہ لعنت ہے ان عورتوں پہ جو بے پردہ پھرتی ہیں اس وقت آپکو یہ چیز تیر کی طرح وہی لگے گی جسے انسان کا نازک مقام کہتے ہیں۔
گفتار کے غاذی صرف یہ لکھ سکتے ہیں کہ شہید تیرا قافلہ تھما نہیں رکا نہیں، جزاک اللہ۔
جس نے خون ناحق کیا وہ ہم میں سے نہیں۔ اس سے ملتی جلتی چیزپڑھ کر فارغ ہوئ ہوں۔ اس پہ ایک تحریر بھی لکھونگی اور اسکے آخیر میں لکھونگی، اسامہ زندہ باد ، شہید تیرا قافلہ رکا نہیں ، تھما نہیں۔
یہ گفتار کا غازی بننا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔
مذہب کو استعمال کرنا اتنا آسان ہے کہ ایک شخص جسے دین اور دنیا کی کچھ عقل نہ ہو وہ بھی آپ پہ اپنی شرعیت نافذ کرنے کو تیار رہتا ہے۔
ReplyDeleteاب فرض کریں کہ ایک شخص جو خود میڈیکل ڈاکٹر ہو اسکے بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہ لگے ہوں اور اسکی وجہ سے وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا معذور ہو جائیں تو آپ بناء اپنی عقل استعمال کئے سر پکڑ لیں گے کہ ایسی ڈاکٹری پڑھنے کا کیا فائدہ۔ اس سے اپنا علاج تک کروانے پہ تیار نہ ہوںگے۔ لیکن جب دین کی بات آتی ہے تو آپ ایسے ایسے ارشادت ڈھونڈھ کر لاتے ہیں کہ بس ہر ایک شخص اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے آرام سے بیٹھ جائے۔ اور اسکی انگلیاں دوسروں کی طرف اٹھی رہیں۔
ایسے گفتار کے غازیوں کی پرواہ کسے ہو سکتی ہے۔ سوائے یہ کہ یہ اپنے ہم عمل لوگوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو قرآن اور حدیث سنائیں۔
اگر آپکو اسلام اور مسلمانوں کی اتنی فکر ہے تو اعمال پہ زور دیں اعمال پہ علم سب کے پاس ڈھیروں ڈھیر ہے۔ وہ بھی جو جانتے ہیں اور وہ بھی جو نہیں جانتے۔
عنیقہ۔۔۔ آپ تو یہ بات تب کریں۔۔۔ جب آپ دوسروں کے اعمال سے واقف ہوں۔۔۔ کسی کے بارے میں ایویں رائے قائم کر لینا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔
ReplyDeleteآپ الطاف حسین کی مرید اعلیٰ ہیں۔۔۔اور متحدہ کا ہر قاتل آپکو غازی اور ہر مردہ شہید نظر آتا ہے اور آپ کے مطابق یہ آپ کی اپنی چوائس ہے۔۔۔ تو وقار یا وقار جیسے کروڑوں مسلمان اگر اسامہ بن لادن کو شہید کہتے ہیں تو آپ کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔۔۔ یہ وقار اور وقار جیسے کروڑوں مسلمانوں کی اپنی چوائس ہے۔۔۔ آپ لکھیں اسامہ کی شہادت پر۔۔۔ آپ کے پاس آپ کے دو ککڑ تو ہیں ہی۔۔۔ جو آپ کے پیچھے اپنے سینگھ پھسنانے پہنچ جائیں گے۔۔۔
پتا نہیں کیوں مجھے آج "محلے کی آنٹی" بہت یاد آ رہی ہیں۔۔۔ عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔۔۔
http://emraaniqbal.co.cc/2011/02/%D9%85%D8%AD%D9%84%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D8%A2%D9%86%D9%B9%DB%8C/
ہم بے عمل عامل ہوں یا با عمل جاہل۔۔۔ نیت تو ٹھیک ہے ہماری۔۔۔ اور اللہ نیتوں کا پھل دیتا ہے۔۔۔ بے شک عمل ضروری ہے۔۔۔ لیکن جیسے آپ فتوی جاری کر دیتی ہیں۔۔۔ اس طرح تو بہتان کے زمرے میں آپ سب سے پہلے گھیرے جائیں۔۔۔
ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کے بلاگ پر آج کل ٹریفک زرا کم ہے اور آپ شکار کی تلاش میں نکلی ہوئی ہیں۔۔۔ اس لیے آپ کے منہ سے تیزاب بہنا کوئی خاص بات نہیں۔۔۔
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDeleteبا زوق صاحب ایسے لوگوں کو آپ کیا کہیں گے؟
ReplyDeleteیہ کافر جو آپ مسلمانوں کی زمہ داریاں اٹھا رہے ہیں؟؟؟؟؟
عالم با عمل یا بے علم عامل؟؟؟؟؟؟؟؟
معاشرہ | 16.05.2011
شرط بھی ہاری اور کامیاب بھی ہو گئے
Großansicht des Bildes mit der Bildunterschrift: اس تنظیم کی ابتدا Wetten dass...? یعنی ’’شرط لگاتے ہو..؟ نامی پروگرام سے ہوئیMenschen für Menschen یعنی انسان، انسانوں کے لیے ایک ایسی جرمن امدادی تنظیم ہے، جو ایتھوپیا کے مختلف علاقوں میں سماجی کاموں میں مصروف ہے۔ ایک انوکھے انداز سے قائم ہونے والی اس فاؤنڈیشن کو آج تیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔
سابق جرمن اداکارکارل ہائنز بوئم Menschen für Menschen نامی فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔ اس امدادی تنظیم کا قیام ایک انوکھے واقعے سے کم نہیں ہے۔ یہ بات ہے 16مئی1981ء کی، جب کار ل ہائنز جرمن ٹیلی وژن پر پروگرام Wetten dass...? یعنی ’’شرط لگاتے ہو..؟‘‘ میں شریک تھے۔ اس موقع پر کارل ہائنز بوئم نے ایک منفرد شرط لگائی۔ انہوں نے کہا تھا:’’مَیں شرط لگاتا ہوں کہ اس وقت جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ سے اس پروگرام کو دیکھنے والے ایک تہائی سے بھی کم ناظرین ایسے ہیں، جو افریقی ساحل علاقے کے غریب، نادار اور بھوکے افراد کے لیے صرف ایک مارک عطیہ دینے کو تیار ہوں گے۔ اور یہ شرط میں خوشی سے ہارنا چاہتا ہوں۔‘Bildunterschrift: Großansicht des Bildes mit der Bildunterschrift: کارل ہائنز کی ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والی اہلیہ الماز بوئم بھی اس تنظیم میں ان کے ساتھ کام کرتی ہیں ‘
بس پھرکیا تھا، تھوڑی ہی دیر میں جرمن مارک جمع ہونا شروع ہوگئے، جو اُس زمانے میں جرمنی کی کرنسی تھی اور 1.2 ملین مارک کی خطیر رقم جمع ہو گئی۔ اس وقت کسی کو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ کارل ہائنز بوئم شرط ہارنے کے باوجود کامیاب ہو جائیں گے اور یہ شکست ایک کامیاب امدادی تنظیم کی بنیاد بنے گی۔
گزشتہ تیس برسوں کے دوران ’مینشن فیور مینشن‘ نے ایتھوپیا کے 4.5 ملین باشندوں کی ایک بہتر زندگی گزارنے کے سلسلے میں مدد کی ہے۔ اس حوالے سے تیس برس مکمل ہونے پر ایک اور شرط لگائی گئی ہے۔ یہ شرط ان دس جرمن شہروں کی جانب سے ہے، جو ایتھوپیا کے مزید علاقوں کو اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کے قابل بنانا چاہتے ہیں۔ دس جرمن شہروں نےکارل ہائنز بوئم اور اُن کی ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والی اہلیہ الماز بوئم سے شرط لگائی ہے کہ وہ 2 مئی سے 9 جون کے درمیانی عرصے میں کوشش کریں گے کہ ان کا ہر باسی ایک یورو کا عطیہ دے۔Bildunterschrift: Großansicht des Bildes mit der Bildunterschrift: اس تنظیم نے ایتھوپیا کے 4.5 ملین باشندوں کی ایک بہتر زندگی گزارنے کے سلسلے میں مدد کی ہے
تیس برس مکمل ہونے پر سابق اداکار کارل ہائنز بوئم اور ان کی اہلیہ الماز بوئم نےکہا کہ ’’ان تین دہائیوں کے دوران جرمنی بھر سے ملنے والے عطیات پر ہم انتہائی تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ ہم ان سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جو اس سفر میں ہمارے ساتھ رہے ہیں۔ مجھے امید ہےکہ یہ دس شہر اپنی شرط جیت جائیں گے اور اس مرتبہ بھی میں بخوشی شرط ہارنا چاہتا ہوں‘‘۔
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDeleteہم سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کے بلاگ پر آج کل ٹریفک زرا کم ہے اور آپ شکار کی تلاش میں نکلی ہوئی ہیں۔۔۔ اس لیے آپ کے منہ سے تیزاب بہنا کوئی خاص بات نہیں۔۔۔
ReplyDeletekia yeh jumlay Aapki ikhlaqiat kay miar per poray utartay hain jo inhain baqi rakha gia hay????
عبداللہ اور آنٹی گروپ کے دوسرے لوگوں کا مسئلہ دور نظری ( فارسایٹڈنس ) کا ہے. انہیں دور کی چیزیں تو بہت صاف نظر آجاتی ہیں لیکن قریب کی نظر سے بہت سارے حقائق اوجھل رہ جاتے ہیں. انہیں جرمنی میں جمع ہونے والی خیرات نظر آگئی لیکن اپنے ملک پاکستان میں ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا خیراتی کام نظر نہیں آرہا. یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے پاکستان میں موجود مدرسوں کا نظام لاکھوں بچوں کی خوراک اور تعلیم کا بندوبست کرتا ہے.جس نظام سے آنٹی گروپ سخت الرجک ہے . یہ نظام پوری دنیا میں ایک اپنے نوع کی واحد مثال ہے. یہ بات بہت سارے لوگ مانتے ہیں کہ پاکستان میں لوگوں میں خیرات دینے کا رجحان دنیا میں سب سے زیادہ نہیں تو کسی سے کم بھی نہیں. اس خیرات کے نظام کی بدولت یہاں ایسے ایسے اسپتال اور رفاہی ادارے کام کر رہے ہیں کہ دنیا میں اسکی مثال کم ملتی ہے. یورپ میں تو خیراتی نظام کا ذمّہ انکی خوشحال حکومتوں نے لیا ہوا ہے. تیسری دنیا میں جہاں یہ نظام نہیں ہے وہاں لوگ یورپ اور امریکا سے امداد کے متظر رہتے ہیں. وہاں سے امداد پھوکٹ میں نہیں آتی بلکہ مسیحی مشنری کے ساتھ آتی ہے یا اس امداد کے بہانے ان حکومتوں کے افراد ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں.اور امداد کے بہانے ان ملکوں کی جڑیں کاٹنا شروع کر دیتے ہیں. جب ٢٠٠٥ میں زلزلہ آیا تو امریکا سب سے پہلے مدد کو آیا بڑی واہ واہ ہوئی. سوال کیے جانے لگے کہ بنیاد پرست کہاں ہیں؟ سعودیہ کہاں ہے ؟ فلاں کہاں ہے ؟ مگر جب ان کے بھیجے ھوۓ پیرامیڈیکل اسٹاف نے لوگوں سے سوال کرنا شروع کیا کہ تمہارا الله کہاں ہے ؟ تمہارا رسول کہاں ہے ( معاذ الله ) اور جب یہ بات باھرنکلی تو روشن خیال اور ہمنواؤں کو چپ لگ گئی. جماعت الدعوه نے جب بارے پیمانے پر فلاحی سرگرمیاں شروع کیں تو ...انسانیت کے گورے پرستاروں کو مرچیں لگ گئیں اور جماعت الدعوه پر پابندی کا مطالبہ آنے لگا. ٩/١١ کے بعد وار آن ٹیرر کے نام پر کتنی ہی مسلمانوں کی کتنی ہی امدادی تنظیمیں بند کی جا چکی ہیں.
ReplyDeleteیہ اپنا کچرا تیسری دنیا میں پھینکنے والے، افریکا اور ایشیا کے غریب اور نادر لوگوں پر اپنی دواؤں کے ناجائز تجربات کرنے والے، دنیا بھر میں بھوک اور افلاس اور قحط کے باوجود ہزاروں ٹن گندم سمندر برد کرنے والے، تیسری دنیا کے لوگوں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ہمیشہ مقروض رکھنے والوں ، ڈبلیو ٹی او کے ذريعے تیسری دنیا کی معیشت ، اجناس اور انسانوں کو غلام بنانے والے آج انسانیت کے ہمدرد بنے ھوۓ ہیں .....کیوں ؟ کیونکہ ایک فیشن چل پڑا ہے دجالیت کا ..... انا للہ و انا علیھ راجعون ...
ماشاء اللہ خوب لکھتے ہین آپ کا بلاگ پہلے نگاہ سے نہیں گزرا تفصیل سے دیکیں گے
ReplyDeleteالسلام علیکم ورحمتہ اللہ۔۔ پہلی مرتبہ آپکا بلاگ دیکھا، ماشااللہ اچھے عنوان پر لکھا ہے آپنے۔ اور دُرست لکھا۔ اللہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ReplyDeleteاللھم اھدنا صراط المستقیم