ایک طویل اکتا دینے والی کہانی ہے ۔
اِس کہانی کو صرف وہی شخص کامیابی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے جس کی توجہ ہمیشہ کہانی کے اگلے پیراگراف پر لگی رہے۔
زندگی ۔۔۔
ایک تلخ تجربے کا نام ہے ۔
کھوئے ہوئے مواقع کا افسوس
گزرے ہوئے حادثات کی تلخیاں
لوگوں کی طرف سے پیش آنے والے برے سلوک کی یاد
اپنی کمیوں اور تنگیوں کی شکایت ۔۔۔
غرض بے شمار چیزیں ہیں جو آدمی کی سوچ کو منفی رُخ کی طرف لے جاتی ہیں۔
آدمی اگر ان باتوں کا اثر لے تو اس کی زندگی ٹھٹھر کر رہ جائے گی۔
.................................................
اقتباس : مولانا وحید الدین خاں
ذندگى اندهوں كے هاتهى والى بات هے جى جس كا جەاں هاتهـ پڑ گيا اس كو هى لگا سمجنے هاتهى اور وهى دوسروں كو بهى بتانے لگ گيا
ReplyDeleteكيا خيال هے جى آپ كا بيچ اس بات كے ؟؟
آپنے ايں!!!بلاگر صاحبان ـ
ميں پہلے بھی آپ کے بلاگ پر آتا رہا ہوں ليکن کبھی تبصرہ نہيں کيا ۔ آج شعيب صاحب کے بلاگ پر آپ کا 11 جون 2006 کا تبصرہ پڑھا ۔ پسند آيا ۔ حوالہ ۔
ReplyDeletehttp://www.pkblogs.com/shuaibday/2005/10/blog-post_11.html
افتخار اجمل صاحب ۔
ReplyDeleteاِس بلاگ پر تشریف آوری اور تبصرے کا شکریہ ۔
میں کچھ ماہ سے مصروف تھا ، اس لیے اپنے بلاگ کے تبصرہ جات نظر سے نہیں گزرے ۔
خاور ۔
ہو سکتا ہے یہ مثال کچھ یا زیادہ انسانوں کے لیے مناسب ہو ۔ مگر اس مثال کا دنیا کے تمام لوگوں پر اطلاق درست نہیں ۔
ہاں کڑوی حقیقت یہی ہے کہ اکثریت دوسروں کو وہی سمجھانے نکلتی ہے جو خود سمجھتی ہے ۔
بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنی سنانے سے پہلے دوسروں کی بھی سنیں اور اس سے اتفاق کریں ۔۔۔۔