حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد حضرت ہمام ابن منبہ کے صحیفے کی دریافت اور اس کی تدوین کا کام ڈاکٹر حمید اللہ کا بہت بڑا کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ فرانسیسی زبان میں ان کے ترجمہ قرآن کی اہمیت بھی مسلم ہے۔
صحیفہ ہمام بن منبہ کے دو مخطوطے ڈاکٹر حمید اللہ کو دستیاب ہوئے تھے، جن میں بال برابر بھی فرق نہ تھا۔ ایک دمشق میں تھا اور دوسرا برلن میں۔ اس صحیفے میں کل 138 احادیث موجود ہیں۔
مولانا عبدالرحمٰن کیلانی (علیہ الرحمۃ) لکھتے ہیں :
صحیفہ ہمام بن منبہ ، جسے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے حال ہی میں شائع کیا ہے ، یہ ہمام بن منبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں۔ جنہوں نے یہ صحیفہ (جس میں 138 حدیثیں درج ہیں) لکھ کر اپنے استاد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (وفات:58ھ) پر پیش کر کے اس کی تصحیح و تصویب کرائی تھی۔ گویا یہ صحیفہ سن 58 ھجری سے بہرحال پہلے ہی ضبط تحریر میں لایا گیا تھا۔ اس کی ایک قلمی نسخہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے سن 1933 عیسوی میں برلن کی کسی لائیبریری سے ڈھونڈ نکالا۔ اور دوسرا مخطوطہ دمشق کی کسی لائیبریری سے۔ پھر ان دونوں نسخوں کا تقابل کر کے 1955ء میں حیدرآباد دکن سے شائع کیا۔ اور جہاں کہیں الفاظ کا اختلاف ہے ، اسے بھی واضح کر دیا۔
ہمیں یہ دیکھ کر کمال حیرت ہوتی ہے کہ یہ صحیفہ پورے کا پورا مسند احمد بن حنبل میں مندرج ہے۔ اور بعینہ اسی طرح درج ہے جس طرح قلمی نسخوں میں ہے ماسوائے چند لفظی اختلافات کے ، جن کا ذکر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے کر دیا ہے۔ لیکن جہاں تک زبانی روایات کی وجہ سے معنوی تحریف کے امکان کا تعلق ہے ، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب دیکھئے امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ) کا سن 240 ھجری ہے۔ بعینہ صحیفہ مذکور اور مسند احمد بن حنبل میں تقریباً 200 سال کا عرصہ حائل ہے۔ اور دو سو سال کے عرصے میں صحیفہ ہمام بن منبہ کی روایات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے ہی امام موصوف تک منتقل ہوتی رہیں۔ اب دونوں تحریروں میں کمال یکسانیت کا ہونا کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ زبانی روایات کا سلسلہ مکمل طور پر قابل اعتماد تھا۔
صحیفہ کی اشاعت اور تقابل کے بعد دو باتوں میں ایک بات بہرحال تسلیم کرنا پڑتی ہے :
1 : زبانی روایات ، خواہ ان پر دو سو سال گزر چکے ہوں ، قابل اعتماد ہو سکتی ہیں۔
2 : یہ کہ کتابتِ حدیث کا سلسلہ کسی بھی وقت منقطع نہیں ہوا۔
(بحوالہ : آئینۂ پرویزیت ، ص:533-534)
جامعہ الازہر کے معروف عالم ڈاکٹر رفعت فوزی عبدالمطلب اس مطبوعہ صحیفے کی تحقیق ، تخریج اور شرح کا کام کر رہے تھے اور وہ آدھا کام مکمل کر چکے تھے ، حسن اتفاق ایسا ہوا کہ "دارالکتب المصریہ" سے ایک اور مخطوطہ ان کے ہاتھ لگ گیا جو سن 557 ھجری کا مکتوب تھا۔
اس مخطوطے میں ان دونوں کے مقابلے میں ایک حدیث زائد ہے اور یہ زائد حدیث مسند احمد میں شامل صحیفے کی احادیث میں بھی موجود ہے۔ اب ڈاکٹر رفعت فوزی نے اسی مصری مخطوطے کو بنیاد بنا کر کام مکمل کیا۔ اسے "المکتبہ الخانجی" نے پہلی مرتبہ ستمبر 1985ء (بمطابق محرم الحرام 1406ھ) میں قاہرہ سے شائع کیا۔
صحیفہ ہمام بن منبہ کی 139 احادیث کی تفصیل کچھ یوں ہے :
61 - عقائد و ایمانیات
46 - عبادات
9 - معاملات
17 - اخلاقیات
9 - متفرقات
12 - احادیث قدسیہ
***
صحیفہ ہمام بن منبہ (عربی) ، ویکی سورس پر : الصحيفة الصحيحة - همام بن منبه
///
عربی پی۔ڈی۔ایف (12 میگابائٹس) ، المحقق: رفعت فوزي عبد المطلب - ڈاؤن لوڈ
///
صحیفہ ہمام بن منبہ (اردو ترجمہ) ، کتاب و سنت لائیبریری پر : ۔۔۔۔۔۔۔
اردو ترجمہ و شرح : حافظ عبداللہ شمیم
صفحات : 490
پی۔ڈی۔ایف فائل سائز : قریب 11 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک : صحیفہ ہمام بن منبہ
Awesome work!
ReplyDeleteبازوق صاحب ویسے تو میرے تبصرے جناب کو ہضم ہوجاتے ہیں اسی لیئے اکثر ہضم کر کے ڈکار بھی نہیں لیتے!
ReplyDeleteمیرا سوال بس اتنا ہے کہ جب اللہ نے احادیث کی حفاظت کا زمہ نہیں لیا تو آپ جیسے لوگ کیوں اسے ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں؟
اور جس کی حفاظت کا ذمہ اس نے لیا ہے اس کی گہرائی میں اتر کر اسے سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
امید کرتا ہوں کہ اس بار میرا سوال ہضم کرنے کے بجائے اسے چھاپیں گے بھی اور جواب بھی دیں گے مگر آسان دلیل کے ساتھ،گھما پھرا کر ناک پکڑنے کی کوشش کیئے بغیر!
Abdullah
باذوق بھائی ! مفید معلومات کے لیے بہت بہت شکریہ ..
ReplyDeleteباذوق بھائ ! اتنی مفید معلومات پر اللہ آپکو جزاءے خیر دے۔
ReplyDeleteجزاک اللہ خیراکثیر
بات بالکل بجا ہے کہ اگر روایات دین تھیں یا دین کا حصہ تھیں تو یہ آج ہی کیوں دریافت ہو رہی ہیں ؟ نبیﷺ نے کیوں صحیفہ ہمام بن منبہ جتنی کوئی کتاب لکھوائ تاکہ کوئی شک و شبہ باقی نہ رہتا ؟
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت خوب ❤️
ReplyDelete