کل 15-جون-09ء کے اخبار "اردو نیوز" (سعودی عرب) میں ایک خبر آئی کہ "بارہ بنکی" میں ایک 35 سالہ خوبصورت عورت نے اپنے شوہر کو اتنا پیٹا کہ بچارہ ہلاک ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ شوہر بیوی پر ادھر ادھر جانے پر سخت پابندیاں لگا رہا تھا۔
ساتھ ہی اخبار دیکھنے والے ایک دوست نے پوچھا کہ: یار، یہ بارہ بنکی کہاں ہے؟
بازو موجود ایک ہندوستانی صاحب مسکراتے ہوئے بولے:
شمالی ہند کا مشہور شہر ہے جہاں کے 'گدھے' بھی مشہور ہیں۔
اس پر میں نے ٹکڑا لگایا کہ : ہاں ! جہاں کے ایک گدھے پر کرشن چندر معرکہ خیز ناول بھی لکھ چکے ہیں۔
مگر افسوس کہ ۔۔۔۔۔۔
نہ کسی کو کرشن چندر کا نام معلوم اور نہ اس ناول کا نام !
کیا یہ اردو ادب کا المیہ ہے کہ ہماری موجودہ نسل ہی ایک ایک کر کے ادبی کلاسکس کو فراموش کرتی جا رہی ہے؟؟
آج گوگل چیک کیا تو کرشن چندر کا یہ لازوال ناول پ۔ڈ۔ف شکل میں دستیاب ہو گیا۔
کچھ صفحات ذیل میں مطالعہ فرمائیں اور اردو کے اس صاحب طرز ادیب کو خراج تحسین پیش کریں کہ اس کے قلم کی کاٹ آج بھی موثر لگتی ہے !!
*********
حضرات !
میں نہ تو کوئی سادھو فقیر ہوں ، نہ پیر دستگیر ہوں ، نہ شری 108 سوامی گھمگھمانند کا چیلا ہوں ، نہ جڑی بوٹیوں والا صوفی گورمکھ سنگھ مچھیلا ہوں ، میں نہ ڈاکٹر ہوں ، نہ حکیم ہوں ، نہ کسی ہمالیہ کی چوٹی پر مقیم ہوں ، میں نہ کوئی فلم اسٹار ہوں ، نہ سیاسی لیڈر۔
میں تو بس ایک گدھا ہوں۔
جسے بچپن کی غلط کاریوں کے باعث اخبار بینی کی مہلک بیماری لاحق ہو گئی تھی۔ ہوتے ہوتے یہ بیماری یہاں تک بڑھی کہ میں نے اینٹیں ڈھونے کا کام چھوڑ کر صرف اخبار بینی اختیار کی۔
ان دنوں میرا مالک دھنو کمہار تھا جو بارہ بنکی میں رہتا تھا (جہاں کے گدھے بہت مشہور ہیں)، اور سید کرامت علی شاہ بار ایٹ لا کی کوٹھی پر اینٹیں ڈھونے کا کام کرتا تھا۔ سید کرامت علی شاہ لکھنؤ کے ایک مانے ہوئے بیرسٹر تھے اور ان دنوں اپنے وطن مالوف بارہ بنکی میں ایک عالی شان کوٹھی خود اپنی نگرانی میں تیار کرا رہے تھے۔ سید صاحب کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس لئے اپنی کوٹھی کا وہ حصہ جو انہوں نے سب سے پہلے تعمیر کرایا ، وہ ان کی لائیبریری کا ہال تھا اور ریڈنگ روم تھا، جہاں وہ علی الصباح آ کر بیٹھ جاتے۔
باہر برآمدے میں کرسی ڈال کر اخبار پڑھنے کا چسکہ پڑ گیا۔ ہوتا اکثر یوں تھا کہ ادھر میں نے ایک بلند ہوتی ہوئی دیوار کے نیچے اینٹیں پھینکیں اور بھاگتا ہوا ریڈنگ روم کی طرف چلا گیا۔
وکیل صاحب اخبار پڑھنے میں اس طرح مصروف ہوتے کہ انہیں میرے آنے کی خبر بھی نہ ہوتی اور میں ان کے پیچھے کھڑا رہ کر اخبار کا مطالعہ شروع کر دیتا۔ پڑھتے پڑھتے یہ شوق یہاں تک بڑھا کہ اکثر میں وکیل صاحب سے پیشتر آگے اخبار پڑھنے لگتا۔
بلکہ اکثر تو ایسا ہی ہوا ہے کہ اخبار کا پہلا صفحہ میں پڑھ رہا ہوں اور وہ سینما کے اشتہاروں والا صفحہ ملاحظہ فرما رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ یہ جو میں پڑھنا بولنا سیکھا ہوں ، اسے سید صاحب کی کرامت سمجھئے یا ان کی مہربانی کا نتیجہ۔ کیونکہ سید صاحب کو اخبار پڑھتے ہوئے خبروں پر بحث کرنے اور کتاب زور زور سے پڑھنے اور پڑھتے ہوئے اس پر تنقید کرنے کی عادت تھی۔ یہاں جس جگہ پر وہ کوٹھی تعمیر کرا رہے تھے۔ انہیں کوئی ایسا نہ ملا جس سے وہ ایسی بحث کر سکتے۔ یہاں ہر شخص اپنے اپنے کام میں مصروف تھا۔ میں ہی ایک گدھا انہیں ملا مگر اس سے انہیں بحث نہ تھی۔ وہ دراصل گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ اپنی دل ودماغ کی باتیں کسی سے کہنا چاہتے تھے۔ گدھے کے بجائے ایک خرگوش بھی ان کی صحبت میں رہتا تو عالم فاضل بن جاتا۔
سید صاحب مجھ سے بڑی ملاطفت سے پیش آتے تھے اور اکثر کہا کرتے:
"افسوس کہ تم گدھے ہو۔ اگر آدمی کا بچہ ہوتے تو میں تمہیں اپنا بیٹا بنا لیتا۔"
سید صاحب کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ خیر صاحب کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک دن سید کرامت علی شاہ کی کوٹھی تیار ہو گئی اور میرے مالک کو اور مجھے بھی اسی دن وہاں کے کام سے جواب مل گیا۔ اسی رات دھنو کمہار نے تاڑی پی کر مجھے ڈنڈے سے خوب پیٹا اور گھر سے باہر نکال دیا۔ اور کھانے کے لئے گھاس بھی نہ دیا۔ میرا قصور یہ بتایا کہ میں اینٹیں کم ڈھوتا تھا اور اخبار زیادہ پڑھتا تھا۔
اور کہا کہ:
"مجھے تو اینٹیں ڈھونے والا گدھا چاہئے، اخبار پڑھنے والا گدھا نہیں چاہئے۔"
ناچار میں بھوکا پیاسا رات بھر دھنو کمہار کے گھر کے باہر سردی میں ٹھٹھرتا کھڑا رہا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ صبح ہوتے ہی سید کرامت علی شاہ کی کوٹھی پر جاؤں گا اور ان سے کہوں گا کہ اگر اینٹیں ڈھونے پر نہیں تو کم از کم کتابیں ڈھونے پر ہی مجھے نوکر رکھ لیجئے۔
شیکسپئر سے لے کر احمق بھوردی تک میں نے ہر مصنف کی کتاب پڑھی ہے اور جو کچھ میں ان مصنفوں کے بارے میں جانتا ہوں وہ کوئی دوسرا گدھا کیا جان سکتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ وکیل صاحب ضرور مجھ سے التفات کریں گے اور مجھے رکھ لیں گے۔
مگر قسمت تو دیکھئے ۔۔۔۔ دوسری صبح جب میں سید صاحب کی کوٹھی پر گیا تو معلوم ہوا۔ راتوں رات فسادیوں نے حملہ کیا اور سید کرامت علی شاہ کو اپنی جان بچا کر پاکستان بھاگنا پڑا۔ فسادیوں میں لاہور کے گنڈا سنگھ پھل فروش بھی تھے۔ جن کی لاہوری دروازے کے باہر پھلوں کی بہت بڑی دوکان تھی اور ماڈل ٹاؤن سے ملی ہوئی ایک عالیشان کوٹھی بھی تھی۔
اس لئے حساب سے ایک عالیشان کوٹھی زمین بھی یہاں ملنی چاہئے تھی۔ سو بھگوان کی کرپا سے انھیں یہ سید کرامت علی شاہ کی نئی بنی بنائی تیار کوٹھی مل گئی۔
جب وہاں پہنچا ہوں۔ تو گنڈا سنگھ لائیبریری کی تمام کتابیں ایک ایک کر کے باہر پھینک رہے تھے اور لائیبریری کو پھلوں سے بھر رہے تھے۔
یہ شیکسپئر کا سیٹ گیا اور تربوزوں کا ٹوکرا اندر آیا۔
یہ غالب کے دیوان باہر پھینکے گئے اور ملیح آباد کے آم اندر رکھے گئے۔
یہ خلیل جبران گئے اور خربوزے آئے۔
تھوڑی دیر کے بعد سب کتابیں باہر تھیں اور سب پھل اندر تھے۔
افلاطون کے بجائے آلوبخارا۔
جوش کی جگہ جامن ،
مومن کی جگہ موسمبی ،
شیلے کی جگہ شریفے ،
سقراط کی جگہ سیتاپھل ،
کیٹس کی جگہ ککڑیاں ،
بقراط کی جگہ بادام ،
کرشن چندر کی جگہ کیلے ،
اور
آل احمد کی جگہ لیموں بھرے ہوئے تھے !
کتابوں کی یہ درگت دیکھ کر میری آنکھوں میں بےاختیار آنسو آ گئے اور اب ایک ایک کر کے انہیں اٹھا کر اپنی پیٹھ پر لادنے لگا۔
اتنے میں گنڈاسا سنگھ اپنی پھلوں کی لائیبریری سے باہر نکل آئے ، آکر ایک نوکر سے کہنے لگے :
"اس گدھے کی پیٹھ پر کتابیں لاد لو۔ اور اگر ایک پھیرے میں یہ سب کتابیں نہ جائیں تو آٹھ دس پھیرے کر کے یہ سب کتابیں ایک لاری میں بھر کر لکھنؤ لے جاؤ اور انہیں نخاس میں بیچ دو۔"
چنانچہ گنڈا سنگھ کے نوکر نے ایسا ہی کیا۔ بس دن بھر کتابیں لاد لاد کر لاری تک پہنچاتا رہا۔ اور جب شام ہوئی اور جب آخری کتاب بھی لاری تک پہنچ گئی ، اس وقت گنڈا سنگھ کے نوکر نے کہیں جا کے مجھے چھوڑا۔
اس نے میری پیٹھ پر ایک زور کا کوڑا جمایا اور مجھے لات مار کے وہاں سے بھگا دیا۔
میں نے سوچا جس شہر میں کتابوں اور عالموں فاضلوں کی یہ بےحُرمتی ہوئی ہو وہاں رہنا ٹھیک نہیں۔
اس لئے میں نے ترک وطن کا ارادہ کر لیا اور اپنے شہر کے در ودیوار پر حسرت بھری نگاہ ڈالی۔ گھاس کے دو چار تنکے توڑ کر اپنے منہ میں رکھ لئے اور دہلی کا رُخ کیا کہ آزاد ہندوستان کی راجدھائی یہی ہے ، گہوارۂ علم و ادب ہے۔ ریاست ، سیاست کا مرکز ہے ، وہاں کسی نہ کسی طرح گزر ہو ہی جائے گی۔
*********
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھانے میں پہنچ کر کانسٹبل نے مجھے اپنے ہیڈ کانسٹبل کے سامنے جا کھڑا کیا۔
ہیڈ کانسٹبل نے بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا :
"اسے یہاں کیوں لائے ہو رام سنگھ؟"
رام سنگھ نے کہا : "حضور، یہ ایک گدھا ہے۔"
"گدھا تو ہے، یہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں، مگر تم اسے کیوں لائے ہو؟"
"حضور۔ یہ انڈیا گیٹ پر گھاس چر رہا تھا۔"
"ارے گھاس چر رہا تھا۔ تو کیا ہوا۔ تمہاری عقل بھی گھاس چرنے تو نہیں چلی گئی۔ اسے یہاں کیوں لائے ہو؟ لے جا کے کسی مویشی خانے میں بند کر دیتے۔ اس بےزبان جانور کو تھانے میں لانے کی کیا ضرورت تھی؟"
رام سنگھ نے رُکتے رُکتے میری طرف فتح مندی کی نگاہوں سے دیکھ کر کہا :
"حضور، یہ بےزبان نہیں ، بولتا بھی ہے!"
اب کے ہیڈ کانسٹبل بہت حیران ہوا ، مگر پہلے تو اسے یقین نہیں آیا۔ بولا :
"رام سنگھ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟"
"نہیں، یہ بالکل ٹھیک کہتا ہے ہیڈ کانسٹبل صاحب۔" میں نے آہستہ سے سر ہلا کے کہا۔
ہیڈ کانسٹبل اپنی سیٹ سے اچھلا۔ یوں کہ اس نے جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ اصل میں اس کی حیرت بالکل حق بجانب تھی۔ کیونکہ نئی دلی میں ایسے تو بہت لوگ ہوں گے جو انسان ہو کر گدھوں کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ لیکن ایسا گدھا جو گدھا ہو کر انسانوں کی سی بات کرے ، ہیڈ کانسٹبل نے آج تک نہ دیکھا نہ سنا تھا۔ اسی لئے بےچارہ چکرا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے؟
آخر سوچ سوچ کے اس نے روزنامچہ کھولا اور رپٹ درج کرنے لگا۔
اس نے مجھ سے پوچھا:
"تمہارا نام؟"
"گدھا"
"باپ کا نام؟"
"گدھا"
"دادا کا نام؟"
"گدھا"
"یہ کیا؟"
ہیڈ کانسٹبل نے تعجب سے کہا۔
"سب کا ایک ہی نام ہے۔"
یہ کیسے ہو سکتا تھا؟
"مجھے دیکھو۔ میرا نام جیوتی سنگھ ہے۔ میرے باپ کا نام پیارے لال تھا۔ میرے دادا کا نام جیون داس تھا۔ ہمارے ہاں نام بدلتے رہتے ہیں، تم ضرور جھوٹ بولتے ہو۔"
جیوتی سنگھ مجھے شبہ کی نظروں سے دیکھنے لگا۔
میں نے کہا:
"نہیں حضور، میں جھوٹ نہیں بولتا ، اور واقعہ یہی ہے کہ ہمارے یہاں نام نہیں بدلتے ، جو باپ کا نام ہوتا ہے ، وہی بیٹے کا ، وہی پوتے کا۔"
"اس سے کیا فائدہ؟" جیوتی سنگھ نے پوچھا۔
"اس سے شجرۂ نسب ملانے میں آسانی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ۔۔۔ کیا آپ مجھے اپنے پردادا کے دادا کا نام بتا سکتے ہیں؟" میں نے جیوتی سنگھ سے پوچھا۔
"نہیں!" جیوتی سنگھ نے افسوس سے سر ہلا کے کہا۔
"مگر میں بتا سکتا ہوں۔ آپ کے ہاں وہ آدمی بڑا خاندانی سمجھا جاتا ہے جو آج سے چار سو ، پانچ سو ، چھ سو سال پہلے کے مورثِ اعلیٰ کا نام بتا سکے۔ دیکھئے میں آپ کو آج سے آٹھ ہزار آٹھ لاکھ سال پہلے کے مورثِ اعلٰی کا نام بتا سکتا ہوں۔
شری گدھا !
بولئے پھر کیا ہم گدھے آپ سے بہتر خاندان کے ہوئے کہ نہیں ؟"
جیوتی سنگھ نے بڑے غور سے میری طرف دیکھا۔ اس کا شبہ اور بڑھ گیا۔ اس نے آہستہ سے رام سنگھ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا :
"مجھے یہ شخص بڑا خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ ہونہہ۔ یہ کوئی غیرملکی جاسوس ہے ، جو گدھے کے لباس میں نئی دلی کا چکر لگا رہا ہے۔"
رام سنگھ نے کہا :
"حضور۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کی کھال اتروا کر دیکھنا چاہئے۔ اندر سے وہ خفیہ جاسوس باہر نکل آئے گا۔ پھر ہم اسے گرفتار کر لیں گے۔"
جیوتی سنگھ نے کہا:
"تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ مگر اس کے لئے سب انسپکٹر چانن رام کی منظوری لینا بہت ضروری ہے۔ چلو آؤ اسے ان کے سامنے لے چلیں۔"
میرے کان میں بھی کچھ بھنک پڑ چکی تھی۔ مگر میں کان لپیٹے خاموش رہا اور ان دونوں کے ساتھ اندر کے کمرے میں سب انسپکٹر چانن رام کے سامنے چلا گیا۔ چانن رام کی مونچھیں بچھو کے ڈنک کی طرح کھڑی تھیں اور اس کے سرخ چہرے پر ہمیشہ غیض وغضب کا جاہ وجلال رہتا تھا۔ چانن رام کو آج تک کسی نے ہنستے یا مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اسی لئے بہت سے لوگ اسے اعلیٰ افسر سمجھتے تھے۔
چانن رام نے ان کی ساری بات سن کر میری طرف گھور کر دیکھا اور کہا:
"ہاں ، تم تو پاکستان کے جاسوس ہو۔"
میں چپ رہا۔
چانن رام نے زور سے میز پر مکہ مار کر کہا:
"سمجھ گیا ، تم روس کے ایجنٹ ہو۔"
میں پھر بھی خاموش رہا۔
چانن رام نے دانت پیستے ہوئے کہا:
"کمبخت، بدمعاش، کمیونسٹ، میں تمہاری ہڈی پسلی ایک کردوں گا، ورنہ جلد بتاؤ کہ تم کون ہو؟"
یہ کہہ کر چانن رام مجھے مکوں ، لاتوں ، ٹھوکروں سے مارنے لگا۔ مارتے مارتے جب وہ بالکل بےدم ہو گیا تو میں نے ایک زور سے درد بھری ہانک لگائی۔
ہانک لگاتے ہی وہ رک گیا۔ اور پہلے میری طرف حیرت سے دیکھ کر اور پھر نہایت ہی غصہ سے جیوتی سنگھ اور رام سنگھ کی طرف دیکھ کر بولا:
"ارے یہ تو بالکل گدھا ہے، ایک دم گدھا ہے اور تم کہتے ہو کہ کوئی غیرملکی جاسوس ہے۔ تم مجھ سے مذاق کرتے ہو۔ میں ابھی تم کو ڈسمس کراتا ہوں۔"
رام سنگھ اور جیوتی سنگھ دونوں ڈر سے تھر تھر کانپنے لگے۔ ہاتھ جوڑ کر بولے:
"نہیں حضور۔ ابھی یہ باہر کے کمرے میں بول رہا تھا۔ صاف صاف بول رہا تھا انسانوں کی طرح۔"
"تم نے خواب دیکھا ہوگا۔ یا کام کرتے کرتے تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہوگا۔ جاؤ اس گدھے کو ہمارے سامنے سے لے جاؤ اور کسی مویشی خانے میں بند کر کے رکھ دو۔ اگر تین چار دن میں اس کا مالک نہ آئے تو اسے نیلام کر دو۔"
میں خوشی خوشی باہر آیا۔ میری چال کام کر گئی۔ اگر میں بولتا تو وہ لوگ ضرور میری کھال ادھیڑ کر دیکھتے کہ اندر کون ہے؟
اس کے بعد تین چار دن تو کیا جب ایک ہفتہ تک کوئی مالک نہ آیا تو مجھے نیلام کر دیا گیا۔ اب مجھے رامو دھوبی نے خرید لیا جو جمنا پار کرشنا نگر میں رہتا تھا۔
*********
اردو کا کلاسک ناول ۔۔۔
معروف ادیب کرشن چندر کا معرکۃ الآرا ناول
ایک گدھے کی سرگزشت
پ۔ڈ۔ف فائل کی شکل میں ڈاؤن لوڈ کیجئے ۔۔۔
بشکریہ : www.archive.org
فائل صفحات : 161
فائل حجم : 5.5 ایم-بی
ڈاؤن لوڈ ربط :
Ek Gadhe Ki Sarguzisht by: Krishan Chander
بہت خوب پڑھ کر بہت مزہ آیا ابھی ڈونلوڈ کرتا ہوں بہت شکریہ آپ کا
ReplyDeleteشکریہ جناب ۔ آپ نے بچپن کی یاد دلا دی ۔ ان اقتباسات سے گذر کر سب کچھ مانوس سا لگا ۔
ReplyDeleteجو بات آپ نے دورِ حاضر میں ذوق کی کہی ہے تو جناب آجکل اسناد تولی جاتی ہیں پرکھی نہیں جاتیں ۔ تبھی تو ترقی کا یہ عالم ہے کہ دیکھا نہ جائے
ویسے سچ ہی لکھا ہے آج کل انسان اور گدھے میں کچھ ہی دوری رہ گئی ہے ۔
ReplyDeletehttp:/kami.wordpress.pk
bahut hi khoob maza aa gaya parh kar
ReplyDeleteلفظ تو کبھی محتا ج نہیں ہوا کر تے جنا ب اور کرشن چندر کے الفا ظ آج بھی تا زہ ہے جیسے ان کی زندگی میں تھے ۔ اور نئ نسل ضرور اپنا ادب پڑھتی ہے اور انشا ء اللہ پڑھے گی ۔ گزارہ نہیں ہے اگر نہیں پڑھا تو ۔
ReplyDelete