ضیوف الرحمٰن، دھوکہ باز اور حکومتِ پاکستان!
ان کا یہ مراسلہ ، سعودی عرب سے شائع ہونے والے روزنامہ "اردو نیوز" (مورخہ 5-جولائی-2009ء) میں بھی "ایڈیٹر کے نام خطوط" کالم میں چھپا ہے۔
بغیر کسی تبصرہ کے ، آپ سب کی خدمت میں بھی پیش ہے ۔۔۔۔۔۔
***
السلام علیکم!
ابھی زیادہ دور کی بات نہیںکہ سال میں ایک آدھ بار جب کسی خوش نصیب کی عمرے یا حج کی درخواست منظور ہو جاتی تو مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ جاتا، اور مہینہ بھر پہلے ہی لوگ اس کے گھر میں جا کر اپنی حسرتوں کے تکمیل کے لیے دعاؤں کا کہتے کہ وہاں جا کر ہمارے لیے بھی دعائیںکرنا، اور اس کی واپسی پر سب اشتیاق کے ساتھ اس کا والہانہ استقبال کرتے، اور یہاں کے مقدس مقامات کے بارے میں آنکھوں دیکھا حال سن کر اپنے جی کو بہلاتے، آبِ زمزم کا تبرک انتہائی ادب و احترام کے ساتھ وصول کرتے۔ غرض اس فرد کی خوش نصیبی پر ہر کوئی شاداں و فرحاںہوتا، اور اسے ایک خصوصی پروٹوکول کے ساتھ ساتھ اسکے اصل نام کے بجائے "حاجی صاحب" کی پہچان مل جاتی۔
جوں جوں پیسے کی روانی زیادہ ہوتی گئی، سفر میں آسانیاں پیدا ہوتی گئیں یہ سعادت پہلے سے زیادہ افراد کے حصے میں نصیب ہونے لگی، اور گھر گھر میں اتنے حاجی صاحبان ہو گئے کہ اب تو یہ لقب بھی معنی خیز الفاظ میں بولا جانے لگا ہے۔
مگر پھر بھی ان افراد کی خوش قسمتی پر رشک کیا جاتا ہے جو حج و عمرہ کے سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ مگر جب سے یہ عبادت کمرشلائز ہوئی اس کاروبار میں جرائم پیشہ افراد کی دلچسپی بھی بڑھنا شروع ہوئی۔ بے چارے سادہ لوح مسلمان، جو کہ شاید ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی اس مقدس نیت سے کیے جانے والے سفر میں بھی انہیں دھوکہ دینے سے باز نہیں آئے گا، بعض اوقات اپنے مقدر کو روتے نظر آتے ہیں۔
جی ہاں میں نے اپنے ایک جاننے والی خاتون جو دو سال پہلے عمرے پر آئیں، ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جگہ تو مقدس ہے مگر یہاں اللہ کسی دشمن کو بھی نہ لائے، یہ ان کی اس آپ بیتی کا نتیجہ تھا جو اس قدر اشتیاق اور حسرتیں لیے زندگی بھر کا پیسہ جمع کر کے ایک عمرے کی خاطر یہاں آئیں مگر جس ایجنٹ سے انہوں نے ویزہ لیا تھا اس نے صرف تین دن کا پیکج بک کروایا جبکہ ان سے پورے مہینے کے پیسے لے لیے، اور ان کو تب جا کر یہ معلوم ہوا جب ارضِ مقدس پر پہنچے اور تیسرے دن ان کا سامان ہوٹل والوں نے باہر نکال پھینکا، کچھ راتیں تو حرم کے صحن میں سوتے رہے پھر پولیس کے ہتھے چڑھ گئے، جہاں سے بڑی مشکلوں سے ان کی جان چھوٹی رمضان کا مہینہ ہونے کی وجہ سے سیٹ بھی کنفرم تاریخ سے پہلے کی نہیں مل سکتی تھی، خدا خدا کر کے انہوں نے مہینہ گذارا اور ایک تلخ تجربے کے بعد وطن واپس روانہ ہوئے۔
ابھی سب کے ذہنوں میں معتمرین کے ذریعے منشیات سمگل کرنے کی کوشش تازہ ہوگی جس میں ایک سب ایجنٹ ملوث تھا، یہ واقعہ ابھی ذہن سے محو نہیں ہوا کہ ایک معتمرین کا ایک اور سکینڈل سامنے آگیا جس میں آٹھ سو افراد کو یہاں بھیج کر ایجنٹ نے ایئر لائن والوں کے ساتھ مل کر ان کے واپسی کے کنفرم ٹکٹ ریفنڈ کروالئے۔ اب وہ بے چارے جب واپسی کے لیے ائیر پورٹ پہنچے تو انہیں کہا گیا کہ یا تو نیا ٹکٹ خریدیں یا پھر انہیں پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔
اس سے پہلے پاکستان سے عمرے کے ویزے پہ آکر یہاں پر روزگار کے سلسلے میں رک جانے والوں کی شکایات عام ہونے پر سعودی حکومت نے عمرے کے لیے کم از کم عمر چالیس سال کی شرط رکھی تھی، ہماری حکومت کو اسی وقت اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنے چاہیئے تھے اور ایسے ٹور آپریٹرز کے لائسنس کی منسوخی کے ساتھ ساتھ جرمانے کیے جاتے کہ منافع کے لالچ میں غیر قانونی اقدامات کرنے والے ایجنٹس حضرات خود ہی اس مقدس سفر کے بارے میں کوئی غیر قانونی حرکت کرنے سے گریز کرتے۔ مگر جہاں ایک سپاہی سے لیکر وزیر تک رشوت خور ہو وہاں شاید ایسی رسوائیوں پر صرف اپنا جی ہی جلایا جا سکتا ہے، کیونکہ حکومت کے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگنے والی۔
پاکستانیوںکو پہلے ہی دنیا بھر میں سفر کرنے پر جس عزت افزائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے ہمارے اربابِ اختیار اچھی طرح واقف ہیں کہ جہاں خود انہیں جوتے تک اتار کر جامہ تلاشی دینا پڑتی ہے۔ لے دے کر ایک ملک بچا تھا جہاں اطمینان کے ساتھ اہلِ پاکستان اللہ کے مہمان بنتے ہیں، اب یہاں بھی حکومتی پالیسی میکروں کی نا اہلی کے سبب سخت چیکنگ کے ساتھ ساتھ نہ جانے مزید کونسےنئے قواعد لاگو ہونے والے ہیں۔
بشکریہ : سید رفاقت حسین (مکہ مکرمہ)
ہیرا پھیری ہمارے لوگوں میں اتنی سرائیت کر چکی ہے کہ ان کا احساس گم ہو چکا ہے ۔ اللہ اپنا کرم فرمائے
ReplyDeleteاور اس ہیرا پھیری کی ابتدا اور انتہا کرنے والے کون لوگ ہیں اور ان کا تعلق کہاں سے ہے اس کے لیئے زیادہ محنت کی ضرورت نہین پڑے گی
ReplyDelete