یہ دورِ حاضر کا کچھ سلگتا ہوا سا موضوع ہے کہ امتِ مسلمہ شش و پنج کا شکار ہے۔ حالانکہ اس ضمن میں سعودی عرب کے مفتی شیخ محمد صالح المنجد کے دو فتاویٰ درج ذیل روابط پر موجود ہیں :
تقسيم كرنے كى غرض سے كيسٹيں اور سى ڈيز كاپى كرنا
مختلف قسم كے كاپى شدہ سوفٹ وئر پروگرام استعمال كرنا
اور میرا نہیں خیال کہ کسی بھی مکتبِ فکر کے عالم دین کی طرف سے ان فتاویٰ کو غلط قرار دیا گیا ہو۔ کیونکہ یہ مسئلہ خرید و فروخت کے معاملات سے متعلق ہے جس پر مختلف مکاتبِ فکر میں سنگین اختلافات نہایت ہی کم درجہ پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
پہلے فتوے کا درج ذیل پیراگراف کچھ قابل غور ہے :
بعض اوقات ایسے حالات پیش آ سکتے ہیں جن میں مالک کى اجازت کے بغیر ہى کاپى اور
فوٹو کرنا جائز ہو جاتا ہے، اور یہ دو حالتوں میں ہے:
1 - جب مارکیٹ میں نہ ہو، اور ضرورت کى بنا پر کاپى کى جائے، اور خیراتى تقسیم کے لیے ہو اور فروخت کر کے اس سے کچھ بھى نفع نہ حاصل کیا جائے.
2 - جب اس کى ضرورت بہت شدید ہو، اور اس کے مالک بہت زیادہ قیمت وصول کریں، اور انہوں نے اپنے اس پروگرام پر خرچ آنے والى رقم ایک مناسب نفع کے ساتھ وصول کر لى ہو، یہ سب تجربہ کار لوگ جانتے ہیں، تو اس وقت جب مسلمانوں کى مصلحت اس سے معلق ہو تو اسے کاپى کرنا جائز ہے، تا کہ نقصان کو دور کیا جا سکے، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے ذاتى مفاد کے لیے فروخت نہ کیا جائے.
یہاں "ذاتی مفاد کے لیے فروخت نہ کرنے (یعنی redistribute)" کی بات کی گئی ہے۔ اور ضرورت کی بنا پر کاپی کرنے کو جائز سمجھا گیا ہے۔
آدمی کی "ضرورت" اور "منافع کا حصول" کا درمیانی فرق مجھے تو کم سے کم یہ نظر آتا ہے کہ پائیریٹیڈ سافٹ وئرز کے ذریعے کمپیوٹر میں اپنا مواد محفوظ رکھنا آدمی کی ضرورت ہے لیکن اسی کمپیوٹر پر پائیریٹیڈ سافٹ وئرز کو کاروباری طریق پر استعمال کرنا ، یہ اس کا منافع ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلا اجازت دوسروں کی اشیاء کے سہارے کیا ہم منافع حاصل کر سکتے ہیں اور ایسا منافع جائز ہوگا؟
جہاں تک کتابوں کے حقوق کا معاملہ ہے ۔۔۔۔۔
جب میں نے ابن صفی بلاگ شروع کیا اور بلاگ پر ابن صفی کے بہت سے ناولوں کی پ۔ڈ۔ف فائلوں کے ربط دئے تو ابن صفی کے فرزند محترم احمد صفی صاحب کا اعتراض نامہ وصول ہوا اور انہوں نے کہا کہ ناشر (ابن صفی خاندان) کی اجازت کے بغیر نیٹ پر ان ناولوں کی فراہمی کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی ہے۔
میں نے بہرحال روابط ہٹا دئے۔ لیکن بہت سے دوستوں کا اعتراض ہے کہ :
اسلام کا درس تو اوپن سورس ہے ورنہ کتبِ احادیث نہ سامنے آتیں نہ ہم کو دین کا کچھ علم ہوتا
اُن (ابن صفی) کی کتب تو قومی اثاثہ ہیں
ایسا ہی ایک اعتراض یاسر صاحب کی متذکرہ بالا تحریر کے تبصرے میں محمد سعد صاحب نے یوں کیا ہے:
مصنف کو یہ حق تو حاصل ہے کہ اس کی تحریر کو کوئی اور اپنے نام سے نہ چھاپے لیکن یہ نہیں کہ اگر کوئی اسی سے کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس پر علم کے دروازے بند کر دے۔
علم کے دروازے بند کرنے کی بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ پاکستان یا کسی دوسرے ملک کا کوئی علاقہ ایسا پسماندہ تو نہیں کہ وہاں "لائیبریری" کا وجود ہی نہ ہو۔ اگر پسماندہ ہو بھی تو اس کے قصور وار حکومت یا علاقے کے حکام ٹھہریں گے یا مصنفین؟
مانا کہ تبلیغِ علم اہم فریضہ ہے مگر یہ تو ہر عام مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
یہ کہاں کا انصاف ٹھہرا کہ مصنف تو اپنی صلاحیتوں کے بل پر کتاب لکھے ، اسے اپنے خرچے پر شائع کروائے اور پھر علم کے متلاشی غریب غرباء میں فی سبیل للہ مفت بانٹ دے؟
دیگر جو صاحبین استطاعت ہیں ، جو کتاب/کتب کے نسخے خرید کر بانٹ سکتے ہیں ، وہ اپنی ذمہ داری سے بَری ہیں؟
اور وہ جو بلااجازت کتب چھاپ کر منافع اور مشہوری حاصل کریں وہ قابلِ مواخذہ نہیں ہوں گے؟
حقوق کی حفاظت کے معاملے میں ایک واضح صحیح حدیث موجود ہے ، ملاحظہ فرمائیں۔
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه
كسى بھى مسلمان شخص كى اجازت اور رضامندى كے بغير اس كا مال حلال نہيں۔
(صحیح الجامع الصغیر ، کنز الاعمال ، مجمع الزوائد)
علامہ البانی نے اس روایت کو "صحیح الجامع الصغیر" میں صحیح کہا ہے۔
ایک بات کی سمجھ نہیں آئِی کہ فتوے حوالہ جات کیساتھ کیوں نہیں دیے جاتے۔ مانا کہ فتوے دینے والے بہت بڑے عالم دین ہیں اور ان کی بات پر یقین کرنا چاہیے مگر قرآن اور حدیث کے حوالوں کے بغیر فتوے بے وزن لگتے ہیں۔ جس طرح تحریر کے آخر میں آپ نے حدیث کا حوالہ دیا ہے اس طرح فتوے کیساتھ حوالے کا ہونا ضروری ہے۔
ReplyDeleteالسلام علیکم۔
ReplyDeleteبراہِ مہربانی میری بات کی غلط تشریح نہ کریں۔
میرا تبصرہ "ایسا ہی ایک اعتراض" نہیں ہے۔ ناول اور علمی مواد میں فرق ہوتا ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ میں نے غریب طلبائے علم (کیا یہ ہجے درست ہیں؟) کے حوالے سے یہ تبصرہ کیا ہے۔ ان کے حوالے سے نہیں جو مصنف کو مالی فائدہ پہنچا سکتے ہیں لیکن پھر بھی اسے محروم رکھتے ہیں۔
اگر دیے گئے فتووں پر اطمینان قلب ہو بھی تو یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قریب قریب ہر کمرشل سافٹ ویر کے مقابلے میں اوپن سورس، میعاری اور مفت سافٹ ویر بھی دستیاب ہیں جس کی وجہ سے کسی صورت بھی انتہائی ضرورت کی شرط پوری کرنا ممکن نہیں کہ متبادل آسانی سے دستیاب ہے۔ اسی طرح کتاب میں موجود علم بھی اب مختلف میڈیا کے ذریعے قانونی اور مفت دستیاب ہوتو کتاب کی پائیریسی کا جواز بھی نہیں بنتا۔
ReplyDeleteاس سے پہلے کہ کوئی پھر سے میری طرف انگلی اٹھائے، میں واضح کر دوں کہ غریب طالبِ علم کو انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔
ReplyDelete:P
کتاب کے معاملے میں تو میں کہوں گا کہ بالکل جائز ہے
ReplyDeleteعلم کو کسی سے روکنا نہیں چاہئے
ڈفر صاحب
ReplyDeleteآپکی بات تب وزن رکھے گی جب آپکی اپنی کتابیں شائع ہونگی اور آپ اسے مفت تقسیم کرینگے
(-:
فیصل صاحب، آپ نے شاید "محترم ڈفر" صاحب کے روزنامچے پر لکھا یہ اشتہار نہیں پڑھا۔
ReplyDelete"کاپی رائیٹ کے سارے اشتہار ششکے کے واسطے ہیں، جس نے جتنے چھاپے مارنے مارے، کھلی چھٹی ہے"
:D
یہ مطالبہ آپ مجھ سے کرتے تو زیادہ اچھا لگتا۔ ویسے بھی میرا مستقبل میں کچھ اس قسم کے کام کرنے کا ارادہ ہے۔
:)
ہاں بالکل مفت تو کتابیں نہیں بانٹی جا سکتیں اور میں نے بھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔ لیکن کوئی پابندی نہیں لگاؤں گا کہ اس کی نقول بنانا منع ہے۔
آپ تمام کا شکریہ کہ آپ نے اپنے خیالات سے نوازا اور میں اس بات کا قائل ہوں کہ دوسروں کے نظریے سے اختلاف سہی مگر ان کے اظہارِ رائے کے حق کا بہرحال احترام کیا جانا چاہئے۔
ReplyDeleteارے صاحب ڈفرستان کی میری تحاریر مجھے ہی ای میلوں میں وصول ہو رہی ہیں میں نے تو اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا
ReplyDeleteعلم سے منافع حاصل کرنے والے کے بارے میں بھی میرے وہی خیالات ہیں جو باقیوں کے جعلی کتابوں سے علم حاصل کرنے والوں کے بارے میں ہیں
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteالسلام علیکم۔
ReplyDeleteمیرے ذہن میں کچھ نئے سوالات اٹھے ہیں۔ میں بھی ان کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور آپ لوگوں سے بھی گزارش ہے کہ پتا لگانے میں کچھ مدد کریں۔
پہلا سوال یہ کہ کاپی رائٹ کی موجودگی میں پرانی کتابوں کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟
میری رائے تو یہ ہے کہ چونکہ کتاب کی قیمت ادا کر دی گئی ہے تو اب وہ خریدنے والے کی ملکیت ہو گئی۔ لیکن کیا آپ سب بھی اس کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں؟
دوسرا سوال یہ کہ فرض کریں کہ میں برقیات کے موضوع پر ایک کتاب لکھتا ہوں۔ اس میں بیشتر محنت تو میری نہیں بلکہ دوسروں کی ہوگی۔ مثلاً ایٹمی نظریہ کسی اور نے پیش کیا، الیکٹران کسی اور نے دریافت کیا، توانائی کی پیمائش کے اصول کسی اور نے دریافت کیے، اور وغیرہ وغیرہ۔
تو کیا ایسی صورت میں مجھے اس قسم کی پابندی لگانے کا حق ہوگا کہ میری کتاب کی بغیر میری اجازت کے کوئی نقل نہ کرے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے دور میں اور اس کے بعد کے کچھ عرصہ تک کتابوں کے متعلق کیا رواج تھا؟ کیا تب بھی یہ باتیں ہوتی تھیں؟
میں بھی پتا لگانے کی کوشش کرتا ہوں اور آپ سب کو بھی جس عالمِ دین تک رسائی ہو، اس سے ضرور پوچھیں۔
والسلام۔