قارون کے پاس ان گنت دولت تھی مگر ۔۔۔۔
مگر وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریزاں تھا جس کے باعث اس کی دولت بھی اس کے ساتھ غرق ہو گئی اور اس کی کمائی گئی دولت اس کے کسی کام نہیں آئی !
ایک نوجوان نے نوکری کی مسلسل تلاش میں ناکامی کے بعد ایک بزرگ محترم سے مشورہ کیا تو آپ جناب نے فرمایا :
میرا مشورہ مانیں تو اللہ کا نام لے کر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر لیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کو بزنس پارٹنر بنا لیں۔
"بزنس پارٹنر" کی اصطلاح پر جب نوجوان نے بھویں اچکائیں تو جواباً آپ نے فرمایا :
اگر کاروبار کے خالص منافع میں سے 5 فیصد بزنس پارٹنر کا حصہ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دے دیا کریں اور کبھی بھی اس میں ہیرا پھیری یا ڈنڈی نہ ماریں تو ان شاءاللہ کاروبار دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا رہے گا۔
بزرگ کے مشورے کی افادیت پر مشکوک ہونے کے باوجود نوجوان نے عمل کیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شراکتی کاروبار میں کبھی بھی بےایمانی کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ کوئی دس سال بعد آج وہی نوجوان کہتا ہے کہ :
بزنس پارٹنر کے لئے روزانہ ایک ہزار روپیہ نکل آتا ہے جو الحمدللہ اللہ ہی کی مخلوق پر بلاتفریق خرچ کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں ہوتی۔
ایسی ہی ایک دوسری مثال لاہور کے رہائشی درویش صفت ، عام سے غریب شخص منشی محمد کی بھی ہے۔ ان کی گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی۔ انہوں نے ایک دن فیصلہ کیا ہے اپنی آمدنی کا 4 فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔
کچھ ہی عرصہ بعد آپ نے ایک عام سا کاروبار شروع کیا اور وہ ترقی کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں ایک فیکٹری کے مالک بن گئے۔ آپ نے اپنی آمدنی کا 4 فیصد مستحق مریضوں کی صحت پر خرچ کرنا شروع کر دیا اور ایک دن ایسا آیا کہ منشی محمد نے 4 کروڑ روپے کی مالیت سے لاہور میں "منشی ہسپتال" قائم کر دیا۔
دنیا کے کچھ امیر ترین افراد کا جائزہ لیجئے۔
51 سالہ ٹی وی میزبان اوپرا ونفرے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی مالکہ ہیں۔ وہ سالانہ ایک لاکھ ڈالر بےسہارا بچوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہیں۔
کمپیوٹر کے بادشاہ بل گیٹس کی دولت کا اندازہ قریب 100 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ وہ ہر سال اپنے فلاحی ادارے کی جانب سے 27 ارب ڈالر انسانی فلاحی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔
اٹلی کے سابق وزیراعظم سلویا برلسکونی اپنے ملک کے سب سے امیر اور دنیا کے 10 امیرترین افراد میں شامل ہیں۔ وہ سالانہ تقریباً 5 کروڑ ڈالر غریب ملکوں کو بھیجتے ہیں۔
یہودی قوم کی ایک خاصیت ہزاروں سال سے مشہور ہے۔ ہر یہودی اپنی اصل آمدنی کا 20 فیصد لازمی طور پر انسانی خدمت کی مد میں خرچ کرتا ہے۔ آج کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دنیاوی دولت کا 60 فیصد حصہ یہودی قوم کی ملکیت ہے !
پسِ تحریر :
حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
انفق یا ابن ادم انفق علیک
تو میرے ضرورت مند بندوں پر خرچ کر ، میں تجھے خزانۂ غیب سے دیتا رہوں گا۔
صحیح البخاری , کتاب النفقات , باب فضل النفقة على الاہل
جی میں حامی ہوں آپکی تجویز ک
ReplyDeleteجی میں بھی حامی ہوں، بہت اچھی تحریر ہے، لیکن افسوس کے بہت کم لوگ ہوں گے جو اس پر عمل کریں گے
ReplyDelete