انکل ، یہ ذرا سمجھا دیں ہمیں۔ اگر سمجھ میں آ جائے تو یاد بھی جلد ہو جائے گا۔
صاحب۔ ہم نے بہت کوشش کی۔ عرصہ ہوا ادبِ لطیف (اور وہ بھی ترقی پسندانہ) سے دوری اختیار کئے۔ مگر پھر بھی جیسے تیسے کر کے سمجھا دیا۔
اس تشریح پر فیض کی روح تڑپ اٹھی ہو کہ پھڑک اٹھی ہو ، یہ تو نہیں پتا ۔۔۔ لیکن مداحینِ فیض سے معذرت خواہ ہیں اگر کچھ اونچ نیچ محسوس ہو۔
لیجئے ۔۔۔ شرحِ فیض ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔
پیارے بچو ! شاعر کہتا ہے کہ جو تم نے ابھی ابھی اپنے ابو کو پانی پلانے کے لیے گلاس اٹھایا تھا تو دراصل ذرا بےدھیانی میں ہاتھ بڑھایا تھا لہذا شیشہ کا گلاس اگر نیچے گر کر ٹوٹ گیا ہے تو سمجھو کہ وہ گیا بس گیا۔ کراکری کی رفاقت چھوڑ گیا۔ تم چاہو تو انا للہ پڑھ سکتے ہو۔ مگر تمہارا رونا بےفائدہ ہے کیونکہ دانا کہتے ہیں کہ آنسو بہانے سے ٹوٹے گلاس ہی نہیں جڑتے بلکہ ٹوٹے دل بھی نہیں جڑتے۔
دیکھو بچو ! ویسے تو ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکڑے چننا نوکر کا کام ہوتا۔ پیارے پچوں اور معصوم بالغوں کا یہ کام نہیں۔ ہاں کبھی کبھی بچوں کو کھیل کے لیے کانچ کے رنگین ٹکڑے چاہئے ہوتے ہیں تو ذرا دیکھ سنبھال کر چننا چاہئے مبادا کہیں مزید کوئی اور گلاس نہ توڑ بیٹھیں۔ تیسرے مصرعے میں جو "مسیحا" کا ذکر ہے یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں۔ اصل میں یہ شاعر لوگوں کے ایک مرغوب اور پسندیدہ آدمی کا نام ہے۔ جہاں ردیف قافیہ فٹ بیٹھتا ہے تو اسے بلا لیتے ہیں۔
میرے بہادر بچو ! دیکھو کبھی کبھی تم نے غور کیا ہوگا کہ جب کسی مہینے کی آٹھ تاریخ کو بھی ابو دفتر سے تھکے ماندے شانے ڈھلکائے آتے ہیں اور تمہاری ممی ان کی صورت دیکھتے ہی پوچھتی ہیں:
"آج بھی نہیں ملی؟"
تو یہ اصل میں بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں۔ جب تم بڑے ہو جاؤ گے اور فیروزاللغات دیکھنا کھوجنا جان جاؤ گے تو ناداری ، بھوک ، غم ، پتھراؤ ، ڈھانچے جیسے الفاظ کے معانی تمہیں بھی اچھی طرح سمجھ میں آ جائیں گے۔ اس وقت تمہارا کام تو صرف یہ ہے کہ مہینے کے پہلے اور آخری ہفتہ میں کوئی گلاس نہ توڑنا۔
بچو ! یہ دراصل سیاسی شعر ہے۔ سیاست ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ ایسا مال ہے کہ تاجر ، رہزن ، چور اچکے سب اسی کی چاہ میں دیوانے ہوئے جاتے ہیں۔ عوام بچارے چونکہ مفلس ہوتے ہیں لہذا بڑی مشکل سے زندگی گزارتے ہیں کبھی جان پر بن جائے تو آن قربان کر دیتے ہیں۔ ویسے بھی آن کی قربانی ہماری مجبوری ہے۔ ہم جس اسلامی ملک میں رہتے ہیں وہاں جان بچانے کے لیے وقتاً فوقتاً ایسی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اسے قومی مجبوری بھی کہا جا سکتا ہے۔
عزیر بچو ! اس شعر میں شاعر اتحاد امت کا درس دے رہا ہے۔ اس نے تشبیہات اور مثالوں کے ذریعے اپنی بات سمجھائی ہے۔ جیسا کہ دیکھو کچن میں کراکری کتنی خوبصورت نظر آتی ہے اگر ہر چیز اپنی جگہ موزونیت اور مناسبت سے سجائی جائے۔ ورنہ کوئی گلاس بستر پر ، کوئی پیالی صوفے پر ، کوئی پلیٹ کمپیوٹر ٹیبل پر ہو تو ذرا سی لاپروائی پر نیچے گر کر ٹوٹتی ، ہاتھ پاؤں میں چبھتی اور خون بہاتی ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ میں فلاں مسلک کا ہوں تو فلاں طبقہ کا ہے ، تیرا فرقہ یہ ہے میرا فرقہ یہ ہے ، تو یہ ہے میں وہ ہوں ۔۔۔۔ یہ میری جگہ ہے ، تو وہاں جا یہاں مت رہ ۔۔۔۔ تو آپس میں دنگا فساد ہوتا ہے خون کی ندیاں بہتی ہیں اور اتحاد امت پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔
جان پر بن جائے تو آن قربان کر دیتے ہیں۔ ویسے بھی آن کی قربانی ہماری مجبوری ہے۔
ReplyDeleteیہ تو آپ نے پورا ایک سربستہ راز آشکارا کر دیا ہے۔
پاکستانی عوام کی قومی مجبوری؟
جواب۔ ہر آئے دن جان بچانے لے لئیے آن کی قربان!۔
یہ تو کلاسیک ہے۔
بہت خوب، میں بھی جاوید گوندل صاحب کی ہاں میں ہاں ملاوں گا کہ "گر جان بچی تو آن گئی" کو آپ نے خوب بیان کیا ہے
ReplyDeleteتشريح آپ نے درست کی ہے ۔ فيض صاحب کا يہی مقصد ہو گا ورنہ اُنہيں کيا معلوم تھا کہ کہ غريب کيا ہوتا ہے اور عام آدمی کی کيا مُشکلات ہوتی ہيں جبکہ جيل ميں بھی اُن کے ساتھ کوئی عام قيدی نہيں رکھا گيا تھا
ReplyDeleteوہ آئی سی ايس حکمران دماغ کا اکڑی گردن والا انسان تھا جو کسی عام آدمی کے قريب بھی نہ گيا تھا
فیض جیسے دھیمے اور نرم مزاج انسان کے بارے میں آپ کے منفی خیالات جان کر بہت دکھ ہوا۔فیض کی تو بیشتر شاعری غریب اور عام آدمی کے نوحوں سے بھری پڑی ہے۔بہر حال کسی کی انفرادی سوچ سے فیض کا مقام گھٹایا نہیں جا سکتا
Deleteبہت دلچسپ جناب
ReplyDeleteبہت دلچسپ جناب
ReplyDelete