دین و دنیا / کامیابی اور ناکامی - BaaZauq | Urdu writings, views and analysis | باذوق | baazauq.blogspot.com

2009/11/04

دین و دنیا / کامیابی اور ناکامی

کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہمارے دفتر کے ایک ساتھی بڑے پریشان ہو رہے تھے۔ ان کے بڑے لڑکے نے بارہویں جماعت کا امتحان دے دیا تھا اور وہ اسے کسی بہترین کالج میں کمپیوٹر انجینرنگ کے کورس میں داخلہ دلانے کی فکر کر رہے تھے۔ کہنے لگے :
ویسے تو میں نے بذات خود اسے اس کے فائینل ایگزام کی تیاریاں کروائی تھیں پھر بعض اہم سبجکٹس کے ٹیوشنز بھی دلائے۔ لیکن پھر بھی کچھ دل یوں یوں سا ہو رہا ہے بھائی۔
میں نے پوچھا کہ : کس سبب آپ یوں فکر مند ہیں؟
جواباً بولے : دراصل آج کل کے نوجوانوں کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ کچھ لاپرواہ قسم کے ہوتے ہیں۔ تو اس کو دوست بھی کچھ ایسے ہیں ملے ہیں۔ میں نے لاکھ کوشش کر لی کہ ایسے دوستوں سے پیچھا چھڑا لے اور تعلیم کی سمت بھرپور توجہ دے ، مگر ۔۔۔۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ۔۔۔

ہمارے دوست بڑے فکرمند تھے۔ اپنے بچے کے نتیجے کا بڑا انتظار تھا۔ یہ تشویش بھی تھی کہ اگر نمبرات کم آئیں تو ؟؟
یہ فکر بھی تھی کہ اگر خدا نہ کرے فیل ہو جائے تو ؟؟

کچھ سال پہلے نیٹ پر کسی دانشور کا ایک مقولہ پڑھنے کو ملا تھا :
آپ کو اس کی بڑی فکر ہے کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے بچوں کا کیا ہوگا؟ لیکن اس کی فکر نہیں ہے کہ آپ کے بچوں کے مرنے کے بعد ان کا کیا ہوگا؟؟

اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ ایک نہایت تلخ حقیقت ہے !!
ہمیں دنیا کے حوالے سے اپنی اور اپنے اعزاء و اقرباء کی بڑی فکر ہے۔ لیکن آخرت کی جو امتحان گاہ ہے ، اس کے متعلق ۔۔۔۔۔۔
کیا واقعی ہم نے کچھ سوچ رکھا ہے؟
کیا واقعی ہم نے دن بھر میں اس کے لئے کچھ تیاری کی ہے؟
کیا واقعی ہم اس دن کے لیے کچھ فکر مند ہیں؟؟

یہ سب باتیں مجھے اس وقت دوبارہ یاد آئی ہیں جب میں ایک حوالے سے مولانا مودودی (رحمة اللہ علیہ) کی تفہیم القرآن میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
مولانا نے ذیل میں یہ جو کچھ لکھا ہے ۔۔۔۔۔ کاش کہ ہم اس پر سنجیدگی سے غور کر سکیں ۔۔۔۔۔

دنیا میں انسان کی حیثیت درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں کہ اس کا مقصدِ تخلیق یہیں پورا ہو جائے اور قانونِ فطرت کے مطابق ایک مدت تک اپنے حصے کا کام کر کے وہ یہیں مر کر فنا ہو جائے۔
ونیز یہ دنیا اس کے لیے نہ دارالعذاب ہے جیسا کہ راہب سمجھتے ہیں
نہ دارالجزا ہے جیسا کہ تناسخ کے قائلین سمجھتے ہیں
نہ چراگاہ اور تفریح گاہ ہے جیسا کہ مادہ پرست سمجھتے ہیں
بلکہ دراصل یہ اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے۔
وہ جس چیز کو عمر سمجھتا ہے ، حقیقت میں وہ امتحان کا وقت ہے جس اسے یہاں دیا گیا ہے۔ دنیا میں جو قوتیں اور صلاحیتیں بھی اس کو دی گئی ہیں ، جن چیزوں پر بھی اس کو تصرف کے مواقع دئے گئے ہیں ، جن حیثیتوں میں بھی وہ یہاں کام کر رہا ہے اور جو تعلقات بھی اس کے اور دوسرے انسانوں کے درمیان ہیں ۔۔۔ وہ سب اصل میں امتحان کے بےشمار پرچے ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک اس امتحان کا سلسلہ جاری ہے۔ نتیجہ اس کا دنیا میں نہیں نکلنا بلکہ آخرت میں اس کے تمام پرچوں کو جانچ کر یہ فیصلہ ہونا ہے کہ وہ کامیاب ہوا ہے یا ناکام ؟

6 comments:

  1. اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں کو اصلیت سمجھنے اور احکامِ الٰہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

    ReplyDelete
  2. لیکن اپنے بچوں کو دنیاوی زندگی گذارنے کے آداب بھی تو ہمیں ہی سکھانے ہیں۔ انسان کو ایک بہتر اور بااخلاق زندگی گذارنے کے لئیے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ مرنے کے کے بعد کیا ہوگا کی فکر میں گھلنے کے لئیے۔ ان دونوں چیزوں میں توازن رکھنا ضروری ہے۔اب اگر کوئ اپنی اولاد کو وقت کی قدر، انسانی زندگی کی اہمیت، دیگر انسانوں کی اسکی زندگی میں اہمیت، انکے جان ومال کی اہمیت اور دیگر اصولوں کی پاسداری سکھاتا ہے تو یقیناً وہ انکی مدد کرتا ہے کہ وہ اطمینان قلب کے ساتھ زندگی گذارے اور بہتر آخرت کا سامنا کرے۔

    ReplyDelete
  3. @ افتخار اجمل بھوپال
    آمین ! آپ نے درست لکھا۔

    @ عنیقہ ناز
    میرا نہیں خیال کہ اس تحریر سے دنیا سے فرار حاصل کر کے رہبانیت کی جانب رجوع ہونے کی ترغیب دلائی گئی ہو۔ آپ کی یہ بات بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق درست نہیں کہ :
    انسان کو ایک بہتر اور بااخلاق زندگی گذارنے کے لئیے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ مرنے کے کے بعد کیا ہوگا کی فکر میں گھلنے کے لئیے۔

    یہ طرز فکر اس لیے درست نہیں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : ہم نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
    اور اللہ کی عبادت صرف نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰة وغیرہ پر منحصر نہیں بلکہ اسلام تو ایک جامع نظام حیات پیش کرتا ہے اور اس نظام کو پیش کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ زندگی صرف یہ دنیا کی نہیں ہے بلکہ اخروی زندگی کا بھی حقیقی وجود ہے۔
    جو باتیں آپ نے لکھی ہیں ۔۔۔ مثلاً : وقت کی قدر، انسانی زندگی کی اہمیت، دیگر انسانوں کی اپنی زندگی میں اہمیت، انکے جان ومال کی اہمیت اور دیگر اصولوں کی پاسداری ۔۔۔ وغیرہ
    تو ان کو تو ایک کافر بھی مثبت نظریات مانتا اور ان پر عمل کرتا ہے ، پھر مسلمان اور کافر میں فرق ہی کیا رہ گیا؟؟ یعنی مسلمان بھی انہی نظریات پر عمل کرے اور کافر بھی ؟؟ مگر نتیجہ میں مسلمان کو جنت اور کافر کو جہنم ؟؟ یہ انصاف تو نہیں ہوا ناں۔
    تو جس چیز کی طرف میں نے اس مختصر مضمون کے ذریعے توجہ دلانے کی کوشش کی ہے وہ ایمان و آخرت کے اصول ہیں اور افسوس کہ ہم میں سے بیشتر دنیاوی زندگی کی دوڑ میں مصروف ہو کر ان سنہرے اصولوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. خوب صورت تحریر دل دماغ اور خیالات پر اثر کرنے والی اپنی اصلاح کے لیے اکسانے والی۔۔۔کامران اصغر کامی

    ReplyDelete
  5. اس دجالی معاشرہ میں کوئی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ یہ کھینچ کھینچ کر واپس برائی کی طرف لیجاتا ہے کیونکہ اسکی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہیں

    ReplyDelete
  6. @Aneeqa Naaz. aap se sirf ek sawal tha . kya aap ne jin taleemaat ka zikr kya hai ye kahker ke ye bhi tu hame hi apni aulaad ko sikhaani hai ..tu mera sawal ye hai ke hame islaam ye nahi sikhaata ? tu aap is ko islaam aur aakhirat se alag kyun samajhti hain ? ek baat aap ke goshe guzaar karta chalon ke islaam ek mukammil zapta e hayaat hai ..isper amal karlen tu duniya aur aakhirat dono hi kaamiyaab samjhen ..

    ReplyDelete