جو عملی طور پر عام خوش حالی پھیلا سکے۔
اس سلسلے میں '' کمیونزم '' کے گمراہ کن پروپگنڈے سے مجھے شدید نفرت ہے !
ناممکن العمل اصولوں کی تبلیغ محض مفاد پرستی ہے۔ ایک ایسا فریب ہے جسے روٹی اور کپڑے کے تصور سے خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔
ہمارا دین اسلام ۔۔۔ جو کہ دنیا کا عظیم نظامِ عمل ہے ، اس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جن کی صحیح تبلیغ سے معاشرے میں نیا پن پیدا ہو سکتا ہے۔
تورگنیف ، ٹالسٹائے اور کارل مارکس ۔۔۔ وغیرہ کی تصانیف پڑھنے کے بجائے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔ پھر آپ کو ایسی ذہنی تشفی محسوس ہوگی جیسے زندگی روحانی خوشیوں کی گھنی چھاؤں میں آگئی ہو۔
لیکن ۔۔۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض مفاد پرست مولویوں کے ایک طبقے نے ترقی کی راہوں میں جو سنگلاخ چٹانیں پیدا کر رکھی ہیں ، کیا انہیں عبور کیا جا سکتا ہے ؟
یقیناََ !!
کیوں کہ اس طبقہ کا فرد بھی پہلے انسان ہے اور پھر مذہبی قائد۔ چنانچہ ہر ایسے انسان کو اپنے راستے سے ہٹا دیں جس کی غلط قیادت سے دین و دنیا کے حسن پر ناجائز اقتدار کا گرہن لگ رہا ہو۔
لیکن ۔۔۔۔
پہلے بے معنی عقیدے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کہ جن میں زندگی کی صبحیں کھو جاتی ہیں۔ اور ایسی تقریروں اور تحریروں سے گریز کیا جائے ۔۔۔ کہ جیسے ۔۔۔
جیسے ستاروں کی روشنیوں سے مفلسوں کی جھونپڑیاں منور کی جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ محض لفاظی ہے ، ناممکن العمل بات ہے۔
ایسی لفاظی کے بجائے ۔۔۔
سرمایہ داروں کو تلقین کرو کہ وہ مزدور کی محنت کا صحیح معاوضہ ادا کریں۔
مزاروں کی پرستش کرنے والے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو سمجھاؤ کہ مزاروں کی خوبصورت مٹی پر خواہ مخواہ چادریں نہ چڑھائیں بلکہ وہ چادریں بھوکے ننگے لوگوں کو جسم ڈھانپنے کے لئے دے دیں۔
عالیشان ہوٹلوں میں ڈنر کھانے والے رئیسوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر وہ مفلس بھائیوں کی مدد کرنے سے مجبور ہیں تو اپنا بچا ہوا ڈنر کوڑے کرکٹ کے انبار میں پھینکنے کے بجائے بھوکے لوگوں کے حوالے کردیں جو صرف ایک نوالے کے لیے ترستے ہیں ۔
( ایک نامعلوم اردو ناول سے اقتباس )
بہت خوب تحریر ہے ۔ جزاک اللہ خیر
ReplyDeleteآپ کے بلاگ پر صرف بلاگر والا تبصرہ کر سکتا ہے اور میں نہ بلاگر والا بلاگ بند کر دیا ہوا ہے ۔ اس کا کچھ کیجئے ۔ فی الحال میں نے بلاگر کے حوالے سے ہی خان پُری کی ہے
اچھا اقتباس ہے!
ReplyDelete