اس ارشادِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پڑھنے کے بعد خیال ہوتا ہے کہ یہ کون سی خاص ضرورت کی بات ہے ، نہ اس میں کسی ثواب کا ذکر ہے نہ عذاب کا وعدہ اور نہ ہی کسی کام کا حکم ہے۔
لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں یہی خوبی ہے کہ بڑے بڑے مہلک امراض کا علاج نہایت معمولی باتوں میں کر دیتے ہیں۔
یہ بظاہر معمولی بات ہے لیکن اس کو بجا لانے میں جو منافع ہیں اور ترک میں جو نقصان ہیں ان کو معلوم کر کے اس کی ضرورت و اہمیت واضح ہوگی۔
اس تعلیم سے بڑی غفلت ہے اور عوام و خواص سب کو ہے۔ گناہ سے تو سب کو ندامت ہوتی ہے لیکن "لایعنی امور" کا ارتکاب کر کے کسی کو ندامت نہیں ہوتی۔ چنانچہ غیبت کر کے پچھتاوا ہوتا ہے مگر ہنسی دل لگی کر کے کوئی نہیں پچھتاتا کہ اے اللہ ! میں نے فضول وقت ضائع کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
آخر کچھ تو وجہ ہے کہ ہمارے ہاں عمل میں بہت کوتاہی ہے۔ نمازیں بھی پڑھتے ہیں ، وضو بھی کرتے ہیں لیکن گناہ بھی کثرت سے کرتے ہیں۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ نماز اور وضو سے قلب میں جو نور پیدا ہوتا ہے وہ "لایعنی امور" سے زائل ہو جاتا ہے۔
اس بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کبھی کبھی "لایعنی امور" بھی ضروری ہو جاتے ہیں۔
مثلاَ : حدیث میں ہے کہ جب نماز پڑھتے پڑھتے نیند آنے لگے تو سو جاؤ۔
مثلاَ : امام غزالی (علیہ الرحمة) نے لکھا ہے کہ جب ذکر سے دل اکتا جائے تو ذاکر پر تھوڑی دیر ہنسنا بولنا واجب ہے۔
مختصر یہ کہ ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے اس حدیث پر عمل کیا جائے تو دل میں ایسا نور اور اطمینان رہے گا کہ اس دولت کے سامنے سلطنت بھی ہیچ معلوم ہو جائے گی کیونکہ اصل راحت اسی کا نام ہے کہ دل کو چین و سکون ہو !!
ماشاء اللہ بہت اچھی بات نقل کی ہے ۔
ReplyDeleteبہت اہم بات پیش کی ہے اور میرے خیال میں ہمارے کئی مسائل کا حل بھی اسی میں ہے۔ یہاں پیش کرنے کا بہت شکریہ۔ علامہ تھانوی صاحب کو جوار رحمت میں مقام عطا فرمائے آمین۔
ReplyDelete