اردو بلاگستان میں ایک خطرناک رویہ جو پرورش پارہا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ موضوعات کے بجائے لوگو.ں پر تحاریر لکھنے لگے ہیں۔ میلوں دور بیٹھ کر ایک دوسرے کی شخصیت اور کردار کے نقوش کی ہولناکی وضع کرنے میں اپنی لفاظیت اور روایتی پنجابی جگت سازی کے تمام گر آزما رہے ہیں۔ حماقت یہ ہے کہ وہ کبھی ایکدوسرے سے ملے بھی نہیں۔ مگر کردار کشی کے شوق سے سرشار انہیں یہ کام سب سے آسان اور دلچسپ نظر آتا ہے۔نیٹ کی اردو کمیونیٹی کے ایک طویل عرصہ کے میرے اپنے تجربے اور مشاہدے کے مطابق صرف اردو بلاگستان نہیں ، بلکہ اردو کے نام پر جتنی ویب سائیٹس ، فورمز ، گروپس (یاھو ، گوگل وغیرہ) ، چیٹ رومز ، بلک [bulk] ایمیل فارورڈنگ وغیرہ جاری ہیں ، تقریباً سب جگہ یہ بدترین اور قابل اعتراض صورتحال موجود ہے۔
اگر ساری دنیا کے مقابلے میں برصغیری ماحول کا تقابل کیا جائے تو فیصد کچھ زیادہ ہی نظر آئے گا۔ بنیادی وجہ شائد یہی ہو کہ اپنے گریبان میں جھانکے بغیر خود کو فرشتہ اور مقابل کو شیطان یا فرعون سمجھا اور باور کرایا جائے۔
مرد و زن ، دونوں ہی طرف سے اکثر اوقات دردِ دل لئے معاشرہ کی اصلاح کے لئے نکلا جاتا ہے تو کبھی دین کی خدمت کی غرض کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے ۔۔۔۔ مگر عموماً اپنے متضاد اعمال ، غلط سوچ ، اور لاپرواہ قلم سے ، اصلاح کے دعویدار نہ معاشرہ کی اصلاح کر پاتے ہیں اور نہ ہی دین کی خدمت بلکہ دانستہ یا نادانستہ ان کا مقصد فتنہ و فساد برپا کرنا اور شر پھیلانا ہوتا ہے چاہے اس کے لئے کسی حد تک کیوں نہ جانا پڑے۔
ذرا سوچئے کہ کتنا سچ فرمایا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ :
(صحیح بخاری ، كتاب الادب)
ہر ناقص بات جو ذہن میں آئے ، ہر منفی سوچ جس پر نفس اکسائے ، ہر برا رویہ جو مشتعل کرے ۔۔۔۔ ضروری نہیں ہے کہ اسے بیان بھی کیا جائے چاہے "مزاح" کے نام پر یا چاہے مظلومیت کے ناتے سہی۔
اگر ہر خرابی بیان کرنے والی ہوتی تو خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اللہ عز و جل کی طرف سے اُس وقت ٹوکا نہ جاتا (آل عمران : 128) جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کفار پر لعنت کر رہے تھے۔ جب کفار پر لعنت کرنے سے رب نے منع کیا تو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اپنے ہی بھائی کا گوشت نوچنے سے باز نہیں آتے!
کسی کی ذات کے متعلق غلط سلط اندازے لگائے جائیں یا کسی کی مفروضہ یا حقیقی خامیوں کو اجاگر کیا جائے یا جلے دل کے پھپھولے پھوڑے جائیں ۔۔۔۔۔ ان تمام کاموں سے بہتر کام تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت ہے جو واشگاف الفاظ میں یوں بیان ہوئی ہے :
(صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ)
اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو علم و عمل کی توفیق سے نوازے ، آمین یا رب العالمین !!
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتاہے ہزار سجدوں سے آدمی کو دیتا ہے نجات
ReplyDeleteزباں سے کہہ بھی ديا لا الہ تو کيا حاصل
ReplyDeleteدل و نگا مسلماں نہيں تو کچھ بھی نہيں
jazakAllah
ReplyDeletepeople need to understand this.
ہم تو ناغیبت کریں گے نا غیبت سنیں گے
ReplyDeleteبس یار کچھ ویہلے لوک ٹیم پاس کرنے کے لئِے اونگیاں بونگیاں مارتے ہیں۔۔۔ بنا سوچے سمجھے۔۔۔ بندے کو اپنے منہ کے آگے فلٹر لگانا چاہیے۔۔۔ منہ لکھتے وقت کا ہو، بولتے وقت کا، یا ٹائپ کرتے وقت کا۔۔۔ دھیان کر دھیان از بیسٹ پالیسی۔۔۔
ReplyDeleteالسلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
ReplyDeleteجزاک اللہ خیر۔بہت خوب بھائي ذوق بہت ٹھیک اندازسےآپ نےاس روش کی مذمت کی ہے۔اللہ تعالی آپ کےعلم میں اوراضافہ کرے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال