میں تذبذب میں تھا کہ کیا کروں ، کیا نہ کروں ۔۔۔ یہ فیس بک والوں کو کیا سوجھی کہ یہ شرمناک حرکت کر بیٹھے ؟
اچھا خاصا کام چل رہا تھا، دوستوں سے بات بھی ہوتی تھی اور خیالات ، تصاویر اور ویڈیوز کا تبادلہ بھی ہوتا تھا۔ ایک عادت سی ہوچلی تھی روز شام کو فیس بک پر آنے کی۔ پیغام کے خانے میں آئے ہوئے " نامے مرے نام " کتنے اچھے لگتے تھے۔۔۔ عجلت میں جوابات دینے میں کس قدر لطف آتا تھا۔۔۔ ادبی گفتگو کے تو کیا ہی کہنے ۔۔۔ ادھرکوئی افسانہ یا کسی خود نوشت سے احساسات کو جھنجوڑدینے والا واقعہ اسکین کیا اور ادھر پوسٹ کرڈالا اور دیکھتے ہی دیکھتے جوابات کی بھرمار۔۔۔۔ پھر فیس بک پر جناب ابن صفی کے صفحے پر تو ہماری وجہ سے خوب رونق لگی رہتی تھی ۔۔۔۔ اور خاص کر جب کوئی خاتون ہماری پوسٹ کے جواب میں یہ فقرہ لکھتی تھیں کہ "نائس شیئرنگ راشد صاحب" تو من ہی من میں لڈو پھوٹتے تھے ۔۔۔۔ یہ سب کچھ کیا گیا، زندگی جیسے ویران سی ہوگئی ۔۔۔
شاید 31 مئی کے بعد فیس بک پر سے پابندی ہٹ جائے، یہ تقویت بھی دل کو تھی ۔۔۔ لیکن پھر دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ جیسے فیس بک کو روزانہ استعمال کرنے کی عادت ہوگئی تھی، اس پابندی کے بعد اس کواستعمال نہ کرنے کی بھی عادت ہوگئی ۔۔۔
لیکن آخراس کا مستقل حل کیا ہوگا ؟ یہ سوال پیش نظر رہا۔ کچھ دن بیتے تو احساس ہوا کہ فیس بک کی انتظامیہ اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے اس صفحے کو ہٹا بھی تو سکتی تھی جیسے ہم نے تین ماہ قبل کمال احمد رضوی صاحب (الف نون فیم) کا صفحہ تخلیق کیا تو یہ اختیارات خود بخود مل گئے کہ کسی بھی نامعقول رائے کو فی الفور ہٹا دیا جائے۔ تو یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ دل آزاری کا سبب بنے والے صفحے کو پاکستان میں بلاک کردیا جائے۔
اس پابندی کے بعد روزجمنے والی یاروں کی محفل میں ہم احباب کو ایک روز بتا رہے تھے بھائیو! اصل بات تو یہ ہے کہ دل میں ڈھیٹ اور بے حس قسم کا چور ہے جو چپکے سے کہتا ہے کہ ایک دن یہ پابندی ہٹ جائے گی اور یہ کہ متعلقہ صفحہ ہٹا کر بھی تو کام چلایا جا سکتا ہے۔ ہماری اس بات کے جواب میں ایک بحث شروع ہوئی ۔ احباب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے گئے۔ ہم نے کہا کہ :
دوستو! کسی نے ہمیں ایک ایسا لنک بھیجا ہے جسے استعمال کرکے آپ باآسانی فیس بک پر جاسکتے ہیں ۔۔ اور تو اور اپنی لوکیشن بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ کیوں نہ اس کو ٹرائی کیا جائے ؟
اس تمام گفتگو کے دوران کونے میں بیٹھا ایک یار آہستگی سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن آوازوں کے شور میں اس کی آواز دب سی جاتی تھی۔ یوں بھی پہلے کب ہم نے اس کی کسی رائے پر توجہ دی تھی ؟ نہ بات کہنے کا سلیقہ، نہ آواز میں گن گھرج ۔ نحیف ساانسان اور سدا کا کمزورموقف۔۔۔ یکایک کسی نے کہا کہ بھائیو! ذراہمارے اس دوست کی بھی سن لو کہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ اجازت ملنے پر وہ اپنی کمزور سی آواز میں گویا ہوا:
"آپ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بجائے پوری سائٹ کو بلاک کرنے کے، فیس بک کے محض ان صفحات کو بلاک کردیا جائے جہاں یہ دل آزار مواد موجود ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے! کوئی اہل ایمان ایسی عمارت کے کسی کمرے میں بیٹھ سکتا ہے جس عمارت کی کسی اور منزل پر ہی سہی، کسی اور کمرے میں ہی سہی، آنحضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں گستاخی کی جارہی ہو ؟ ۔۔۔ ہرگز ہرگز نہیں۔ یہی معاملہ اس ویب سائٹ کا بھی ہے"۔
کمرے میں یک دم خاموشی چھا گئی ۔۔۔ سب لوگ ٹکڑ ٹکڑ اس کی طرف دیکھے جارہے تھے۔وہ پستہ قد ، کمزور سا انسان ایک دم سے سب کی نظروں میں قد آور اور معتبر ہوگیا تھا۔ سادی سی بات ، سیدھی دلوں میں اتر چکی تھی۔
اس لمحے میں نے ایک فیصلہ کیا۔۔۔۔
پابندی کے باوجود فیس بک کو استعمال کیے جاسکنے والا وہ لنک میں کسی اور کو نہیں بھیجوں گا۔ ۔۔۔
31 مئی کو اگر حکومت نے فیس بک پر سے پابندی اٹھانے کا فیصلہ نہ کیا تو میں یہ سائٹ استعمال نہیں کروں گا۔ اور اگر حکومت نے فیس بک پرسے پابندی اٹھا لی اور اس کے بعد کسی بھی موقع پر ویب سائٹ کی انتظامیہ نے دوبارہ ایسی شرمناک حرکت کی تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دوں گا۔ آخر فیس بک کی انتظامیہ کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ان کی اس حرکت سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔
میں تو ایک بے عمل انسان ہوں۔ اکثریت کا خیال ہے کہ ان کو دنیا کی بڑی سے بڑی آسائش و سہولت، شان رسالت پر سمجھوتہ کرنے کے عوض دی جائے تو وہ اسے پائے حقارت سے ٹھوکر مارتے ہیں:
یہاں فاصلوں میں ہیں قربتیں، یہاں قربتوں میں شدتیں
کوئی دور رہ کر اویس ہے، کوئی پاس رہ کر بلال ہے
تازہ اطلات کے مطابق بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی فیس بک پر پابندی عائد کردی ہے ۔ ایسی اطلات بھی آئیں کہ ویب سائٹ کی انتظامیہ کو پاکستان میں لگنے والی پابندی کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ادھر امریکہ کے موقر جریدے نیوز ویک نے فیس بک کے بانی مارک زوگر برگ کو انسانی مزاج و احساسات سے ناآشنا اور تعلقات عامہ کے فن میں نااہل قرار دیا ہے ۔نیوز ویک نے اپنی تازہ اشاعت میں کہا ہے :
مارگ زوگر اور اس کے ساتھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تو ماہر ہیں مگر انسانی تعلقات کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ انہوں نے پرائیویسی پالیسی کے حوالے سے سوچ میں غیر معمولی سقم کا مظاہرہ کیا ہے۔ فیس بک کا تعلقات عامہ کا شعبہ ناکارہ ہے۔ بحران حل کرنے کے بجائے وہ صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ ابتدا میں پرائیویسی پالیسی پر نظر ثانی نہ کرنے کا اعلان کیا گیا اور اب کہا جارہا ہے کہ فیس بک کے ممبران کے دباوٴ پر پالیسی کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ان ہتھکنڈوں سے فیس بک کی مقبولیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
دوستو! میں آج اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ میرا کیا وطیرہ ہے کہ آنحضو ر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عقیدت بھی ہے، ان کی شفاعت کا سہارا بھی ہے اور فیس بک کو چھوڑنا بھی گوارا نہیں:
آپ کی باتیں جزوی طور پر درست ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عدالت میں فیس بک کی طرف سے مقرر کردہ وکیل کے مطابق یہ صفحات ختم کر دئے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی تصدیق بعض بلاگرز کر چکے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ صفحات اب موجود نہیں اور احتجاج رائیگاں نہیں گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اس کے باوجود فیس بک کااستعمال غیرمناسب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا جس ڈی وی ڈی یا سی ڈی پلئیر سے غیر شرعی وڈیوز دیکھی گئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر تعلیمی یا شرعی و تلاوت وغیرہ کی سی ڈی یا ڈی وی ڈی نہیں استعمال کرنی چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انٹرنیٹ پر کہیں نہ کہیں ملعونوں کی طرف سے ایسی گستاخیاں اب بھی موجود ہیں تو کیا انٹرنیٹ کا استعمال بھی متروک کر دینا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ بحث آگے بڑھانے کا مقصد اصل اور حقیقی معلومات کا حصول ہے ناکہ فیس بک کے استعمال کو جائز قرار دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteحکیم صاحب خاکے ابھی بھی موجود ہیں
ReplyDeleteحکیم صاحب قبلہ! مزاج گرامی
ReplyDeleteعرض یہ ہے کہ ہم نے یہی بات لکھی تھی کہ اگر حکومت 31 مئی کو یہ فیصلہ واپس لے لیتی ہے تو فیس بک کو استعمال کیا جاسکتا ہے (دوبارہ پڑھیے) اور یہ کہ اگر اس قسم کی کوئی حرکت دوبارہ کیے جانے کی صورت میں فیس بک کو خیر باد ہی کہہ دینا مناسب ہوگا ----
کسی نے کہا تھا اللہ کو مرنے کے بعد "فیس" دکھانا ہے، فیس بک نہیں
واللہ اعلم بالصواب
خیر اندیش
راشد
لاکھ دلائل سہی مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاسر اور راشد بھائی کی معلومات کی روشنی یں فیس بک کا حالیہ استعمال کسی طور مناسب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی بات پر متفق ہونا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteلاکھ دلائل سہی مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاسر اور راشد بھائی کی معلومات کی روشنی یں فیس بک کا حالیہ استعمال کسی طور مناسب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی بات پر متفق ہونا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteمرنے کے بعد اللہ کو فيس دکھانا ہے فيس بک نہيں
ReplyDeleteکتنے مزے کا ہے فقرہ
دوستو!
ReplyDeleteمیں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ میں ایک بے عمل انسان ہوں لیکن آج یہاں آپ لوگوں کے، بالخصوص ہمارے بھائی حکیم خالد صاحب کے پختہ خیالات کو پڑھنے کے بعد خوشی اس بات کی ہے کہ احباب کی اکثریت خالد صاحب جیسا ہی سوچتی ہے ----
ایک برس پیشتر ہم فیس بک سے واقف نہ تھے لیکن جب وہاں جناب ابن صفی کا صفحہ جونہی تخلیق کیا گیا، ایک ہی جست میں براجمان ہوئے اور پھر چل سو چل - دوستوں سے رابطے کے لیے تو ای میل کی سہولتیں موجود ہیں ہی لیکن فیس بک پر صرف اور صرف جناب ابن صفی ہی پر توجہ مرکوز رہی ---
اب کیفیت یہ ہے کہ پچھلے ایک ماہ سے صفی صاحب کے متذکرہ صفحے پر احباب کی آمد رک گئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس صفحے کے لگ بھگ 900 ممبران فیس بک سے گریزاں ہیں --- تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ صفی صاحب کے اہل خانہ بھی اس بات پر سنجیدگی سے غور فرما رہے ہیں کہ معلومات کا یہ خزانہ کہیں اور منتقل کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔????? اس پر سوچا جارہا ہے -----
میرا موقف وہی ہے جو مضمون میں تحریر کرچکا ہوں -- حکومت وقت نے پابندی لگائی اور اب فیس بک کی انتظامیہ کی طرف سے معافی کے بعد حکومت ہی کی جانب سے پابندی ہٹائی جاچکی ہے --- پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ دل آزاری والا صفحہ ہٹایا جاچکا ہے (گرچہ اس میں ابھی ابہام ہے) ایسے میں میرا خیال اب بھی وہی ہے کہ مستقبل میں اگر اس عمل کو دوہرایا گیا تو "تو نہ سہی کوئی اور سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی اور نہ سہی تو کوئی اور سہی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امید کرتا ہوں کہ اسی طرح آپ تمام احباب اپنے خیالات کو یکجا کرتے جائیں گے
خیر اندیش
راشد اشرف
@ یاسر خوامخواہ جاپانی
ReplyDeleteیاسر صاحب ، کیا یہ درست ہے کہ خاکوں والا صفحہ اب بھی فیس بک پر موجود ہے؟
چونکہ سعودی عرب میں یہ صفحہ بلاک ہے لہذا میں تو تصدیق نہیں کر سکتا۔
ویسے درست بات تو یہ ہے کہ اگر فیس بک جیسی ایک انتظامیہ کو مسلمان ایسا سبق سکھا دیں کہ سب مل کر فیس بک سے علیحدہ ہو جائیں تو بہت ممکن ہے کہ ناموسِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاطر ہر چیز تیاگ دینے والے مسلمانی جذبے سے دنیا آگاہ ہو جائے اور آئیندہ سے کوئی ایسی واہیات حرکت کی جراءت نہ کرے۔
بالکل موجود ہے
ReplyDeleteاور اگر یہ صفحات نہین ہوں گے تو اور ہوں گے
لیکن اگر آپ پوسٹ میں درج فارمولے سے چیزوں سے قطع تعلق کرنے لگے تو ایک دن دنیا چھوڑنی پڑے گی
@ ڈفر
ReplyDeleteنہیں جناب۔ دنیا کیوں چھوڑنی پڑے گی بھلا؟
دنیا کو تو ہمیں صرف یہ بتانا اور جتانا ہے کہ ناموسِ رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جذبے پر سارے مسلمان کیوں اکٹھا ہوتے ہیں اور مغرب کی آزادئ اظہار رائے کی حدود کیا ہیں اور کہاں کہاں وہ دہرا معیار قائم رکھتے ہیں؟
اگر سرِ راہ کوئی ہمارے باپ کو گالی دے تو کیا ہم یہ سوچ کر آگے بڑھ جائیں گے کہ آخر میں کس کس سے لڑوں؟ کل کوئی دوسرا کسی اور جگہ گالی دے گا ۔۔۔ پرسوں کسی اور مقام پر۔
ہمارے ہاں کے معمولی سے سیاستداں تک اپنی من چاہی بات منوانے کسی بھی حد تک جاتے ہیں تو اپنے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاطر ہمارا مسلمانی جذبہ کیوں بیدار نہیں ہوتا؟ کیوں ہم سمجھوتے کی راہ اپنانے پر مصر ہیں؟ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارا ہی موقف عین حق پر ہے۔
یہ بھی تو دیکھئے کہ یہ کس قدر تشویشناک اور پریشان کن بات ہے کہ فیس بک پر جب یہ مقابلہ شروع کیا گیا تو دنیا بھر سے محض تین ہی دن میں چھتیس ہزار پوسٹ شامل ہوگئیں ---- ہم ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ کو رو رہے تھے اور یہاں اس جیسے چھتیس ہزار نکل آئے ----
ReplyDeleteاچھا لکھا ھوا ہے
ReplyDeleteI Love Ilama Iqbal
ReplyDelete