اس بار بھی ان کا تازہ ترین کالم بعنوان "تیسری ای میل" (شائع شدہ : 15 اپریل 2011ء) پیش خدمت ہے۔
میں اس کالم کو مزید مختصر کر کے اپنی ترتیب کے ساتھ پیش کر رہا ہوں ، اصل کالم آپ نیچے دئے گئے لنک میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
***
ایک محترم دوست کی جانب سے مجھے دو ایمیل ملی ہیں۔
پہلی ای میل ۔۔۔۔۔۔ کراچی کی جامعہ بنوریہ کے بارے میں۔
اخباری رپورٹ کا عنوان ہے "لوگوں کی جان بچانے کیلئے چوری کا فتویٰ جاری کرنے پر غور"۔
جامعہ بنوریہ کے مفتی صاحب کے پاس 2 ہزار کے لگ بھگ سائلین حاضر ہوئے۔ یہ کراچی کے معروف صنعتی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور تھے۔ ان کی شکایات تھیں کہ ۔۔۔۔
وہ اشیائے خورد و نوش اور روزمرہ استعمال کی دیگر بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں آئے روز کے اضافے سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان کا ماہانہ مشاہرہ 6 سے 9 ہزار روپے کے درمیان ہے اور گھرانہ 5 ، 6 یا 10 افراد پر مشتمل ہے۔ اس قلیل اجرت پر اور مہنگائی کے اس طوفان میں ان کا گزارہ مشکل ہے۔ گھروں میں فاقے ہو رہے ہیں اور علاج معالجہ کے وسائل نہ ہونے پر ان کے اہل خانہ ان کی آنکھوں کے سامنے سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔
سائلین نے کہا ۔۔۔۔۔
جب کسی مسلمان کی بھوک کے مارے موت واقع ہونے والی ہو تو اسلام اسے سور کا گوشت کھانے کی اجازت دیتا ہے اور خودکشی کو حرام قرار دیتا ہے۔ اب کیا اسی دلیل کو سامنے رکھتے ہوئے چوری ، ڈکیتی یا ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ ناجائز مال سے وہ اپنے اہل خانہ کے پیٹ کی آگ بجھا سکتے ہیں ؟؟
ملک کے مشہور فلاحی ادارے ایدھی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ شہر میں پانچ مقامات پر مفلس لوگوں کو کھانا کھلا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک مراعات یافتہ طبقہ اپنی شاہ خرچیوں میں کمی نہیں لاتا۔
دوسری ای میل ۔۔۔۔۔۔ فیصل آباد میں شادی کی ایک تقریب میں ڈالروں کی برسات۔
یہ تقریباً پانچ منٹ کی یوٹیوب ویڈیو ہے۔ منظر شادی کی تقریب ، محفلِ راگ و رنگ ، اسٹیج پر ایک مغنی اپنے سازندوں کے ہمراہ، سامنے ہال میں دیڑھ دو سو کے قریب حاضرین۔
حاضرین میں سے ایک نوجوان اپنا بریف کیس کھولتا ہے اور ڈالروں کی گڈیاں نکال کر گانے والے پر نچھاور کرتا ہے۔ جب ہاتھ میں پکڑے ڈالر ختم ہو جاتے ہیں تو بریف کیس سے دوبارہ نئی گڈیاں لا کر اچھالتا ہے۔ وہ ایسا کئی بار کرتا ہے اور اس کے کام میں اس کا ایک اور ساتھی بھی ہاتھ بٹاتا ہے۔ لٹانے والے دیوانے ہو چکے ہیں۔ سارا فرش امریکی کرنسی کے ڈھیر میں چھپ گیا ہے۔ گانے والے پر ڈالروں کی برسات ہو رہی ہے۔ مستی مسرت ہے۔
مگر ۔۔۔۔ صرف چند سو گز کے دائرے میں برقی توانائی نہ ہونے سے ہزاروں کھڈیاں ویران پڑی ہیں اور ہزاروں مزدور گھرانے شکم کی آگ میں اپنے بدنوں کے ایندھن جلا رہے ہیں !
***
تیسری ای میل کی خواہش نہیں ہے !
جب اہل ثروت پر اتنی بےحسی چھا جائے کہ ان کے نزدیک نام و نمود انسانی جان سے زیادہ اہم ہو جائے تو پھر تاریخ کا دھارا اپنا رخ یوں پلٹتا ہے کہ ہر قدم پر لہو کا خراج لیتا ہے۔ لاکھوں کے لباس زیب تن کرنے والے ، نجی محفلوں پر کروڑوں لٹانے والے اور مظلوم خلق خدا کے درد و آشوب سے بےحسی کا مظاہرہ کرنے والے ہمارے حکمران اور ثروت مند فوراً تاریخ سے سبق سیکھیں ورنہ ۔۔۔۔
تیسری ای میل کہیں ان کے عبرتناک انجام کے بارے میں نہ ہو !!
-----
کالم : تیسری ای میل (جاوید اقبال) - روزنامہ اردو نیوز ، 15-اپریل-2011
درست ہے کہ جب بے حسی چھا جائے تو قہر نازل ہوتا ہے ۔ اور اس سے بڑھ کر يہ کہ قہر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے مگر لوگوں کو سمجھ نہيں آتی
ReplyDeleteکيا دنيا ميں قہر کا نزول شروع نہيں ہو چکا ؟
يہ زلزلے ۔ تسونامی ۔ ہوا اور پانی کے طوفان ۔ بم دھماکے ۔ يہ سب کيا ہے ؟
السلسم علیکم
ReplyDeleteایک ڈالروں کی برسات والی ویڈیو تو میں نے بھی دیکھی تھی۔۔ میرے ایک دوست نے بڑے فخر سے فیس بک پے شئیر کی کہ یہ اس کے کسی کزن کی شادی کا سین ہے۔۔۔۔
:(
معاف کیجئے گا۔ السلام علیکم لکھنا مقصود تھا۔
ReplyDeleteہمارے کرتوت اور ہماری بے حسی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ انقلاب تو شاید نہ آئے مگر اللہ کے عذاب کو ہم آواز دے رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم پہ رحم کرے۔ یہ بے حسی اور لاتعلقی دین سے دوری اور اخلاقی اقدار کے انحطاط ہونے کی وجہ سے ہے۔
ReplyDeleteواقعی بہت ہی فکر مندی کی بات ہے کہ حالات اضطراری ہوچکے ہیں۔
ReplyDeleteاور بات یہ ہے کہ مفتی نعیم صاحب نے اگر جواز کا فتوی نہیں دیا تو عدم جواز کیلئے بھی کوئی سخت دلیل نہیں دی بلکہ صرف یہ کہا کہ اس سے امن وامان کا نقصان ہوگا۔
اور یہ اصراف کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں۔