اسلام میں ہنسی مذاق اور لطیفہ گوئی - BaaZauq | Urdu writings, views and analysis | باذوق | baazauq.blogspot.com

2008/11/10

اسلام میں ہنسی مذاق اور لطیفہ گوئی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی اور پاکیزہ زندگی کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مرنجان مرنج طبیعت کے حامل تھے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طبیعت میں بذلہ سنجی ، نرم خوئی اور کشادہ روئی بدرجہ اَتم موجود تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طبیعت میں شدت و سختی اور ترش روئی بالکل نہیں تھی۔
جیسا کہ خود قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ‫:
اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) تند خو اور سخت مزاج ہوتے تو یہ لوگ آپ کے قریب نہیں آتے۔
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 159 )

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمہ وقت تبلیغی و دعوتی مشن میں مصروف رہنے کے باوجود کھیل کود ، تیر اندازی ، گھوڑ دور اور پیراکی کے علاوہ ازواج مطہرات اور صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم) سے ہنسی مذاق اور تفریحی باتیں کرتے تاہم اس میں اعتدال و توازن رکھتے۔

صحابہ کرام بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے ہنسی مذاق اور ایک دوسرے سے تفریح کرتے اور دل بہلاتے تھے۔
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ اصحابِ رسول نہایت خوش مزاج، خوش اخلاق، کشادہ دل اور نرم خو تھے اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق اور دل دلگی بھی کرتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت کے واقعات بھی سناتے اور شعر و شاعری سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔

حضرت ابن سیرین (رحمة اللہ) فرماتے ہیں ‫:
اصحابِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نہایت خوش طبیعت اور اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے۔ جب حلقہ یاراں ہوتا تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ عام انسانوں کی طرح گھل مل جاتے ، نہایت حسین انداز میں تفریح کرتے ، ہنسی مذاق اور دل لگی کی باتیں کرتے جبکہ بعض صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) اپنی بذلہ سنجی سے مجلس کو زعفران زار بنا دیتے۔
لیکن تفریحات اور ہنسی مذاق کے دوران کسی کی دلآزاری نہیں کی جاتی تھی اور نہ ہی خلافِ حق کوئی بات ہوتی۔
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) تو علامہ اقبال کے اس شعر کے سچے مصداق تھے ‫:
حلقہ یاراں ہو تو ریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہے تو فولاد ہے مومن

دین داروں کے بعض طبقے ہنسی مذاق اور تفریح کو دین کے منافی تصور کرتے ہیں اور اس پر شدید نکیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن اگر بغور ان آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان میں مطلق ہنسی اور تفریح سے ممانعت نہیں کی گئی ہے بلکہ غرور و تکبر اور استہزاء و تمسخر کے ساتھ کئے جانے والے ہنسی مذاق سے منع کیا گیا ہے۔

ایک حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے زیادہ ہنسنے سے منع فرماتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔
اس قولِ مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہنسی میں مبالغے سے منع فرمایا ہے ، مطلق ہنسی سے منع نہیں فرمایا ‫!!

(ام ندیٰ کے مضمون سے مفید اقتباسات)

No comments:

Post a Comment