ہم سب کو اس مشہور حدیث کا علم ہے کہ : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے (انما الاعمال بالنیات)
صحیح بخاری کی یہ سب سے پہلی حدیث ہے۔ امام قسطلانی ، اپنی مشہور شرح بخاری "ارشاد الساری" میں لکھتے ہیں : ھذا الحدیث احد الاحادیث التی علیھا مدار الاسلام ۔۔۔۔۔۔ وقال الشافعی واحمد انہ یدخل فیہ ثلث العلم
یعنی : یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا دارومدار ہے۔ امام شافعی (علیہ الرحمۃ) اور امام احمد (علیہ الرحمۃ) نے صرف اس ایک حدیث کو علم دین کا تہائی حصہ قرار دیا ہے۔
اب اس حدیث کے متعلق ماہرین و محققین کا کیا فیصلہ ہے؟
ڈاکٹر محمود طحان اپنی مشہور کتاب "تیسیر مصطلح الحدیث" میں لکھتے ہیں :
حديث " إنما الأعمال بالنيات " تفرد به عمر بن الخطاب رضي الله عنه : هذا وقد يستمر التفرد إلى آخر السند وقد يرويه عن ذلك المتفرد عدد من الرواةاور اس کے اردو ترجمہ کے طور پر نیٹ کی اردو دنیا کی مشہور شخصیت محمد مبشر نذیر اپنی ویب سائیٹ پر لکھتے ہیں :
"غریب مطلق" یا "فرد مطلق" ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کی ابتدا (یعنی صحابی) ہی میں انفرادیت پائی جاتی ہو (یعنی اسے ایک صحابی روایت کر رہا ہو۔) اس کی مثال یہ حدیث ہے "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔" یہ حدیث صرف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ یہ انفرادیت سند کے آخر تک برقرار رہتی ہے کہ ہر دور میں اس حدیث کو روایت کرنے والا ایک شخص ہی ہوتا ہے۔اونٹ کا پیشاب پینے والی حدیث جتنے بھی طرق سے بیان ہوئی ہے ، اس کو بیان کرنے والے بھی صرف ایک صحابی حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) ہیں۔ اگر اس کو صرف اس وجہ سے رد کرنا ہے کہ یہ روایت "صرف ایک" صحابی سے مروی ہے ۔۔۔۔ تو پھر ردّ کرنے والے کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ والی "انما الاعمال بالنیات" حدیث کو بھی مسترد کرنا چاہئے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنی مرضی چلاتے ہوئے ایک دلیل کی بنا پر ایک روایت کو تو ردّ کیا جائے اور دوسری حدیث کو اسی دلیل کی بنا پر قبول کیا جائے۔
بحوالہ : خبر غریب کی اقسام
خدا آپکو جزائے خیر دے اور ہم سب مسلمانوں کو سیدھے رستے یعنی صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ReplyDeleteمعلوماتی اور مدلل مضامین کا سلسلہ بہت سے لوگوں کے ذہن سے اوہام دور کرتا ہے۔
با ذوق، یہ کہے ہی بنتی ہے کہ آپ کی محنت قابل تحسین ہے۔ اللہ قبول فرمائے۔ آمین
ReplyDeleteسائیں یہ حدیث ایک خاص موقعے پر خاص بندے کے لیے کہی گئی تھی۔ اسے جنرلائز کرنے کی نہ آج کے دور میں ضرورت ہی نہیں۔ اونٹ کے پیشاب سے بہتر طریقہ ہائے علاج اب موجود ہیں۔
ReplyDeleteاخبار احاد نے بڑے بڑوں کو مخمصوں میں ڈال دیا ہے۔ نزول عیسیٰ (ع) کی احادیث بھی اخبار احاد ہیں اور اس وجہ سے بہت سے جدید علماء بشمول مودودی وغیرہ اس عقیدہ سے کچھ بیزار دکھائی دیتے ہیں۔
ReplyDeleteباذوق بھائی ،ایک چیز ان اصولوں سے نہ ٹکراتی ہو جن پر دین کی بنیادیں ہوں ، تو اگر کسی کے سامنے ضعیف حدیث بھی آجائے تو عام طور پر کوئی اعتراض نہیں کرتا،جیسے ایک حدیث جو کہ کافی مشہور ہے ’’نماز مومن کی معراج ہے‘‘ جب کہ اس کے بارے میں دارلعلوم دیو بند کا فتوی موجود ہے کہ یہ حدیث ہی نہیں ہے
ReplyDelete[link]http://darulifta-deoband.org/urdu/viewfatwa_u.jsp?ID=10092[/link]
بلکہ کسی بزرگ کا قول ہے ،جب یہ حدیث کسی کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو نہ تو کوئی تحقیق کرتا ہے اور نہ ہی کسی الجھن کا شکار ہوتا ہے کہ اس کو مانے یا انکار کرے ،کیوں کہ یہ ان عام اصولوں کے خلاف نہیں ہے جن پر عام مسلمان عمل کررہا ہوتا ،بعد میں جب اسے علم ہو کہ ایسی تو کوئی حدیث ہی نہیں ہے تو بھی وہ اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا کیون کہ اس حدیث کو صیح سمجھنے یا نہ سمجھنے سے اس کے وہ اصول جن پر وہ عمل کررہا ہوتا ہے ان پر کوئی اثر نہیں پڑھتا ،لیکن جب کوئی ایسی بات کرے کہ کہاں تو پیشاب کے چھینٹوں سے عذاب ہوتا اور اگر جسم یا کپڑے پر لگ جائے تو نماز نہیں ہوتی اور کہاں اسے پینے کا حکم دیا جارہا ہے ،اب اگر کوئی ایسی بات کرے گا جو کہ معروف اصولوں سے ٹکرائے تو کچھ گواہ تو پیش کرنے ہوں گے ،جیسے حضرت عمر ؓ کے بارے میں معروف ہے کہ اگر ان کے سامنے کوئی ایسی حدیث پیش کی جاتی تو آپ اسے سے دو گواہیاں طلب کرتے تھے ،مطلب عام اصولوں کے خلاف اگر کوئی بات ہو تو تین لوگ کم از کم اس بات کے گواہ ہوں کہ یہ بات نبی پاک ﷺ سے ثابت ہے تو ہی قابل قبول ہو گی ،ورنہ بہتر یہی ہوتا ہے کہ معروف اصولوں پر ہی عمل کیا جائے چہ جائیکہ کہ کسی ایک آدمی کی بات پر دین کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی کر دی جائے ۔
برائے دوست :
ReplyDeleteمیں نے پہلے ہی پیراگراف میں لکھ دیا تھا کہ : "پیشاب پینے کا یہ حکم 'عمومی' نہیں بلکہ کسی بیماری کے علاج کے سلسلے کا 'مخصوص' حکم ہے"۔
اور نہ ہی یہ "علاج" ہمارے دین و ایمان کا کوئی مسئلہ ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر حدیث کو ریجکٹ کرنا ہو تو محدثین و ائمہ دین کی تحقیق پیش فرمائیں ورنہ خاموشی ہزار نعمت ہے دوست!
برائے ابرار حسین :
گو کہ آپ کی ساری باتیں عقلی سہی اور قابل قبول بھی سہی ۔۔۔۔ مگر بھائی ! چونکہ دین میں میری یا آپ کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں لہذا ۔۔۔۔ ایک سوال یہ ضرور اٹھتا ہے کہ :
اگر یہ قاعدہ یا نکتہ (عام اصولوں کے خلاف اگر کوئی بات ہو تو تین لوگ کم از کم اس بات کے گواہ ہوں) ہمارے ذہن میں آ سکتا ہے تو یقیناً تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ دین اور سلف الصالحین نے بھی "تین گواہ" والا یہ اعتراض اس حدیث پر ضرور بالضرور اٹھایا ہوگا ، کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ روایات کا سلسلہ ہم تک انہیں کے توسط سے پہنچا ہے۔
لہذا ایسے تحقیقی حوالے لازماً پیش کئے جانے چاہئے کہ جن میں ائمہ محدثین نے اس روایت کی سند و متن پر عقلی جرح کر رکھی ہو۔ کیونکہ "پیشاب" اُس دَور میں بھی موجود تھا اور 'نجس' ہی مانا جاتا تھا۔ کم سے کم یہ بات میرے لیے ناقابل قبول ہے کہ 'پیشاب' کے نجس ہونے کی بنا پر پیشاب پینے والا علاج تو مجھے کراہیت سے بھرپور لگے مگر ۔۔۔۔۔ وہ محدثین اور ائمہ دین جنہوں نے تسلسل سے اس روایت کو نقل کیا ہو ، وہ صرف نقل ہی کرتے جائیں اور اپنا "اعتراض" درج نہ کرائیں؟؟ یہ تو سراسر ان کی عدالت و دیانت و صداقت پر حملہ گردانا جائے گا !!
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کی یا کسی دانشور صاحب / صاحبہ کی عقل "ناقص" ہے بلکہ یہ صرف preference یا priority کی بات ہے۔
کسی حدیث کی جانچ پرکھ کے لئے اگر میں اسی سائینس آف حدیث کے ماہرین کی تحقیق پیش کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں تو ازراہ کرم مجھے بتائیے کہ اس میں میرا کیا قصور ہے؟؟
اللہ آپکو جزائے خیر دے
ReplyDeleteباذوق بھائی یہ ایسے مسائل ہیں جن پر کسی کے ایمان کا انحصار نہیں ،بلکہ اگر کسی کا دل مطمعن ہوتا ہے تو جو وہ ٹھیک سمجھتا ہے اسے وہ کرنا چاہیے ،اور اللہ کے ہاں تو اس کا جواز ہو گا کہ میں نے یہ عمل تیرے نبی کی سنت سمجھ کر ہی کیا ہے اور اگر کسی کا دل مطمعن نہیں ہوتا تو یہ اس کے اور اس کے رب کے درمیان معاملہ ہے ،کوئی کسی کو اس یا اس جیسے دوسرے معاملات میں مجبور نہیں کر سکتا ۔
ReplyDeleteاور دوسری بات جو میں نے تین گواہوں کے حوالے سے کی تھی وہ بھی میں نے اپنی بات نہیں کی ،بلکہ میں نے یہ سنا اور پڑھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے سامنے جب کوئی ایسی حدیث بیان کی جاتی تھی جو کہ معروف نہیں ہوتی تھی تو آپ اس آدمی کو پکڑ لیتے تھے ،اور اسے کہتے تھے کہ یا تو دو گواہ لاؤ ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا،اسی سے میں نے تین آدمیوں کی بات کی کہ ایک بیان کرنے والا اور دو اس کے گواہ یعنی کم از کم تین لوگ۔
اس کے علاوہ یہ بھی پڑھا ہے کہ حضرت عمرؓ کسی ایک شخص کو زیادہ احادیث بیان کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے ، میری آپ سے درخواست ہے کہ اگر ٹائم مل سکے تو اس بارے میں بھی ایک نئی پوسٹ میں تھوڑا تفصیل سے لکھ دیجئے گا،کہ ان باتوں میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ
برادر محترم ! اطمینان ہونا یا نہ ہونا ایک الگ بات ہے اور کسی حدیث کے متن کو رد کرنا ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ حدیث کی صحت کی تصدیق کسی کے اطمینان یا کسی کے اختلاف سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے اس میدان کے ماہرین کی تحقیق ہی طلب کی جاتی ہے۔
ReplyDeleteآپ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صرف دو واقعات لکھے ہیں جبکہ گروہِ انکارِ حدیث کی ترجمانی کرنے والے حافظ اسلم جیراج پوری صاحب نے تو خلفائے راشدین کے بیشمار ایسے واقعات بیان کئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ خلفائے راشدین حدیث کی روایت میں سخت متشدد تھے۔
جبکہ اسلامی تاریخ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو روایت سننے اور بیان کرنے کے لیے اپنی معاشی جدوجہد کا نصف حصہ قربان کر دیا تھا اور خود انہوں نے بہت سی احادیث (یعنی اخبار احاد) مثلاً : رجم ، عذابِ قبر ، دجال وغیرہ کا برسرِ منبر خوب خوب پرچار کیا تھا۔
‘‘آپ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صرف دو واقعات لکھے ہیں جبکہ گروہِ انکارِ حدیث کی ترجمانی کرنے والے حافظ اسلم جیراج پوری صاحب نے تو خلفائے راشدین کے بیشمار ایسے واقعات بیان کئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ خلفائے راشدین حدیث کی روایت میں سخت متشدد تھے۔’’
ReplyDeleteاسی لئے تو میں نے آپ سے درخواست کی تھی کی اس پر اپنا قلم اٹھائیں تاکہ حقیقت واضح ہوسکے۔
ویسے رجم ،عذاب قبر اور دجال کے بارے میں پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ یہ بھی خبر واحد ہیں۔