کیا قرآن نے انسانی عقل کو لامحدود برتری عطا کی ہے؟
یا پھر یہی سوال کچھ یوں دہرایا جا سکتا ہے کہ :
کیا اللہ تعالیٰ نے انسانی عقل کو زندگی کے ہر معاملے میں فیصلہ کن برتری عطا کی ہے؟
اگر کسی نے قرآن کا "سنجیدگی" سے مطالعہ کیا اور آیاتِ ربانی پر غور و خوص کیا ہے تو اس سوال کا جواب وہ یقیناً نفی میں دے گا۔
ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ہیں جو دین کے معاملات میں عقل کو استعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں اورعلمائے دین کوعقل نہ استعمال کرنے کا طعنہ دیتے ہیں۔ بلکہ کچھ تو آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ : یہ علماء چونکہ عقل استعمال نہیں کرتے اس لئے اہل علم میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں۔
ثبوت کے طورپر غلام احمد پرویز صاحب کا یہ فتویٰ ملاحظہ فرمایئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ :
بحوالہ : قرآنی فیصلے ص:506
کسی چیز کے حفظ کرنے میں عقل و فکر کو کچھ واسطہ نہیں ہوتا اس لئے حفظ کرنے کوعلم نہیں کہا جا سکتا، ہمارے علماء کرام کی بعینہ یہی حالت ہے کہ انھوں نے قدیم زمانے کی کتابوں کواس طرح حفظ کیا ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق فلاں کتاب میں کیا لکھا ہے، فلاں امام نے کیا کہا ہے ، فلاں مفسر کا کیا قول ہے ، فلاں محدث کا کیا ارشاد ہے اور جو کچھ انہیں ان کتابوں میں لکھا ملتا ہے وہ اسے حرفاً حرفاً نقل کر دیتے ہیں اس میں اپنی عقل و فکر کو قطعاً دخل نہیں دینے دیتے اس لئے ہم انہیں علمائے دین کہنے کے بجائے Catalogur یعنی حوالہ جات کی فہرست کہتے ہیں اورعلامہ اقبال کے بقول :
' فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا '
قرآن نے اس کو 'حمل اسفار' یعنی کتابیں اٹھائے پھرنے سے تعبیر کیا ہے یہ اپنے محدود دائرے میں معلومات کے حافظ ہوتے ہیں عالم نہیں ہوتے !
عقل پر زور دینے والے "صاحبانِ عقل" دینی معاملات میں عقل کے استعمال کے لئے دلیل کے طور پر قرآن کی متعدد آیات کو پیش کرتے ہیں جس کے باعث ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو عقلمند کہلوائے جانے کا خواہش مند ہوتا ہے اس خوبصورت جال میں با آسانی پھنس جاتا ہے۔
قرآن نے عقل کا استعمال کس ضمن میں کرنے کا حکم دیا ہے؟
اور کہاں ہرمسلمان عقل کے بجائے اﷲ اور اس کے رسول کے حکم کا پابند ہے؟
محترم عطاءاللہ ڈیروی صاحب نے اپنے ایک مفید مضمون میں جن آیات کا حوالہ دیا ہے ، شکریے کے ساتھ یہاں پیش خدمت ہے۔
عقل کا استعمال کرنے کی دعوت قرآن میں سب سے زیادہ ان مقامات پر ہے جہاں اﷲ تبارک و تعالیٰ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کے ذریعہ انسان کی توجہ توحید باری تعالیٰ کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے مثلاً سورۃ شعراء میں ارشاد ربانی ہے کہ :
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
اﷲ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے ، کیا تم عقل نہیں رکھتے۔
( سورة الشعرآء : 26 ، آیت : 28 )
یہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو اپنی وحدانیت پر دلیل بنایا کہ جب ساری کائنات کا پالنے والا اﷲ ہے تو پھر جو لوگ عبادت میں اﷲ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرتے ہیں وہ سراسر عقل کے خلاف کام کرتے ہیں
اور سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے فرق میں، کشتی جو سمندر میں لوگوں کے نفع کے واسطے چلتی ہے،اﷲ تعالیٰ کا آسمان سے پانی نازل کرنا جو مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ،ہر قسم کے جانوروں کا زمین میں پھیلا دینا، ہواؤں کا چلانا اور بادلوں کا آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دینا ، یہ سب نشانیان ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 164 )
یہاں کائنات کے نظام کا محکم ہونا اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت و وحدانیت پر بطور دلیل لایا گیا ہے تاکہ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی ایک اور اکیلا رب اور معبود صرف اﷲ تعالیٰ کو تسلیم کر سکیں، اسی طرح اوربھی بہت سی آیات ہیں۔
اس کے علاوہ عقل استعمال کرنے کا حکم گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی دیا گیا ہے مثلاً
سورۃ یوسف میں ارشاد ربانی ہے کہ :
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے آپ سے پہلے بھی جونبی بھیجے وہ سب مرد تھے جن پرہم نے ان کی بستی والوں کے درمیان میں ہی وحی کی تھی،کیایہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان پچھلوں کاانجام اپنی آنکھوںسے دیکھیں اور آخرت کاگھربہترہے ان لوگوں کےلئے جو تقویٰ اختیارکرتے ہیں،کیا تم لوگ عقل نہیں رکھتے
( سورة يوسف : 12 ، آیت : 109 )
یہاں ان لوگوں کوعقل کااستعمال کرنے کاحکم دیاگیاجو گذشتہ انبیاء کرام کی امتوں کاحشر دیکھ کربھی انجان بنے ہوئے تھے
اسی طرح عقل کااستعمال کرنے کا مشورہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی دیا ہے ہے جواﷲ تعالیٰ کے احکامات اور بنیادی اخلاقیات کی پامالی پرکمربستہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ برائی کا انجام برا نہیں ہوتا
مثلاً سورۃ الانعام میں اﷲ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ :
قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے آؤمیںبتاؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیاحرام کیاہے ،یہ کہ اﷲ کے ساتھ کسی کوبھی شریک کرنا،والدین کے ساتھ احسان کرتے رہو،اولاد کومفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی،فحش کے قریب بھی مت جاؤ خواہ وہ کھلاہو یا چھپاہواورکسی ایسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اﷲنے حرام کیاہویہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے تمہیں وصیت ہے شاید کہ تم عقل سے کام لو
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 151 )
یہاں تمام ایسی بنیادی اخلاقیات کاحکم دیا جا رہا ہے جو اس قبل دیگر تمام شریعتوں او ر مذاہب میں بھی موجود رہی تھیں اوران احکامات سے اعراض اورخلاف ورزی ہمیشہ سے فساد فی الارض کاباعث رہی تھی اس لئے ان احکامات کی اہمیت و افادیت کوسمجھنے کی غرض سے یہاں عقل و فہم انسانی کودعوت دی جارہی ہےتاکہ مسلمان ان احکامات کی پابندی کواپنے اوپرکوئی بوجھ نہ سمجھیں
اسی طرح بنیادی اخلاقیات کے خلاف ایک چیزقول و فعل کا تضاد بھی ہے ، اس کے متعلق قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْـتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
کیاتم دوسروں کانیکی کاحکم دیتے ہواورخو د اپنے آپ کوبھول جاتے ہوحالانکہ تم تو کتاب بھی پڑھتے ہو پس کیا تم عقل نہیں رکھتے
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 44 )
یعنی کسی غلط عمل کی کوئی تاویل یا توجیح کرکے انسان اپنے آپ کودھوکا نہ دے بلکہ عقل کے تقاضے کوسامنے رکھتے ہوئے جس نیکی کاحکم دوسروں کو دے رہا ہے خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے
اسی طرح ہر وہ بات جو خلاف واقعہ اور زمان ومکان کے اعتبار سے محال ہو اس پر اصرار کرنے والوں کو بھی قرآن نے عقل کے استعمال کا مشورہ دیا ہے
مثلاًسورۃ آل عمرآن میں ارشاد ہوا کہ:
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالْإِنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
اے اہل کتاب ابراھیم علیہ السلام کے(مذہب کے) بارے میں تم کیوں جھگڑتے ہوحالانکہ توریت اورانجیل توان کے بعد نازل ہوئیں ہیں کیاتم عقل نہیں رکھتے
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 65 )
یہاں اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کے اس تنازع کے تذکرہ کر رہا ہے جس میں دونوں فریق یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ابراھیم علیہ السلام ان کے مذہب پر تھے حالانکہ یہودیت اورعیسائیت جن آسمانی کتابوں کے بعد قائم ہوئی وہ ابراھیم علیہ السلام کے بعد ہیں اسلئے ایسی بات محض بے عقلی کے سوا کچھ نہیں
اس لئے قرآن اسکی مذمت کر رہا ہے
یعنی بالا تمام آیاتِ ربانی سے ظاہر ہوا کہ ۔۔۔۔
عقل کو استعمال کرنے کی دعوت ۔۔۔۔
- قرآن کی تشریح
- یا احکامات
- یا حدود اﷲ سے متعلق آیات
کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے !!
بلکہ اسکی تشریح اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال و اعمال کے ذریعہ خود فرمائی ہے
جس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے۔ فرمایا:
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ
جب ہم پڑھائیں تو ہمارے پڑھانےکے بعد پڑھو ، پھراسکی تشریح بھی ہمارے ذمہ ہے
( سورة القيامة : 75 ، آیت : 18-19 )
اس لئے وہ لوگ جو قرآن کی تشریح عقل ، فلسفہ اور منطق کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں وہ بلامبالغہ ایک بڑی غلط راہ پر ہیں۔
البتہ سورۃ بقرۃ کی ایک آیت ایسی ہے جہاں کسی کو اس قسم کا اشکال ہو سکتا ہے اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
یہ لو گ جوئے اورشراب کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجئے یہ بڑے گناہ ہیں اوراس میں لوگوں کوکچھ منفعت بھی ہے لیکن ان کاگناہ انکے نفع سے کہیں بڑھ کر ہے اوروہ لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ (اﷲ کی راہ میں ) کیاخرچ کریں، کہہ دیجئے کہ وہ سب جوتمہاری ضرورت سے زائد ہے ،اس طرح ہم اپنی آیات کوکھول کربیان کردیتے ہیں تاکہ یہ لوگ غور وفکر کریں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 219 )
یہاں اس آیت میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے شراب اور جوئے کے ممانعت کی حکمت بیان کی ہے اوراس کے بالمقابل صدقہ کاحکم دیا ہے تاکہ لوگ ان معاملات میں تھوڑے اورظاہر ی فائدے کونہ دیکھیں بلکہ اس کے گناہ اور نقصان کومدنظر رکھیں جو نفع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اوراس کے بعد غور فکر کی دعوت اس لئے دی گئی ہے تاکہ لوگ دین کے باقی احکامات پر بھی یہ یقین رکھتے ہوئے عمل کریں کہ ان سب احکامات کی کوئی نہ کوئی وجہ اورحکمت ضرور ہے اگرچہ ہم جانتے نہ ہوں
اور اس جانب اشارہ بھی ہے کہ جولوگ ان احکامات پرغور فکرکریں گے ان کواس میں سے بعض احکامات کی حکمت معلوم بھی ہوجائے گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان احکامات پرعمل کرناسب کے لئے فرض ہے مگر انکی حکمت کو جاننا ہر ایک پر فرض نہیں کیونکہ یہاں لفظ "لعلکم" استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں شاید کہ تم ، امید ہے کہ تم یا توقع ہے کہ تم غورو فکرکرو گے ۔
لیکن غلام احمد پرویز صاحب نے صرف "عقل" کوعلم قرار دیتے ہوئے ان تمام علماء کرام کو جاہل اورکتابیں ڈھونے والا گدھا قرار دیا ہے جو تمام کتابوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف عقل کی مدد سے قرآن کی تشریح نہیں کرتے۔
اور اسی طرزِ فکر کا مظاہرہ اردو کی انٹرنیٹ کمیونیٹی میں جا بجا دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اپنے ہی دینِ حنیف کے علماء کرام کو مولوی / ملا کہہ کر اپنی عقل کو برتر اور علماء کو پستی کا شکار بتایا جا رہا ہے !!
جبکہ لفظ "علم" کے معنی ہی "جاننا" ہیں
اورعلامہ کا مطلب ہے : بہت زیادہ جاننے والا
یعنی عالم دین اسی شخص کو کہا جائے گا جو قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے بارے میں گذشتہ اہل علم کے اقوال کو جانتا ہو کیونکہ صراط مستقیم مشروط ہے ان لوگوں کے اقوال ، افعال و اعمال کے استفادہ سے جن پراﷲ تعالیٰ کا انعام ہوا اور جو قرآن کریم کے حوالے سے انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ہیں۔
اگر بقول پرویز صاحب ہدایت اورعلمیت مشروط ہے عقل سے تو پھر قرآن میں فلسفی ، مفکر ، مدبراورعلم منطق کے ماہر افراد کے راستے کو ہی "صراط مستقیم" ہونا چاہیے تھا جبکہ قرآن کے مطابق ایسا ہے نہیں !!
جزاک اللہ۔
ReplyDelete۔ آپ دینی فہم کے لئیے بلا شبہ گرانقدر خدمت ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے
حدیث ھے کہ ، اللہ نے عقل بنانے کے بعد اس پر فخر کیا۔ اگر عقل اتنی ہی غیر اہم چیز ھوتی تو پھر اللہ کو عقل بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ اور پھر اس پر فخر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اللہ رب عالمین ہیں، یعنی تمام عالموں کے رب، تو جب تحقیق نہیں ھوگی غور و فکر نہیں ھوگا ریسرچ نہیں ھوگی تو پتہ کیسے چلے گا کہ اس دنیا کے علاوہ بھی کئی عالم ہیں جنکا رب اللہ ھے ؟ اللہ فرماتے ہیں کے ہم نے اس کائنات میں اسرار و رموز رکھے ہیں انہیں ڈھونڈو تلاش کرو، آسمانوں میں کیا ھے زمیں کے اندر کیا ھے سمندروں میں کیا ھے ، انسان کی بھلائی کے لئیے کیسی کیسی نایاب معدنیات اللہ نے پوشیدہ رکھی ہیں انہیں تلاش کرنا کس کا کام ھے ؟ اور کیا ان سب کی تلاش عقل کے بغیر ممکن ھے ؟ اگر ان سب چیزوں کی تلاش عقل کے بغیر ممکن ھے تو بھائی گوروں کو بھی بتا دہ وہ بیچارے دن رات ایک کر کے عقل استعمال کر کے انسانیت کی خدمت میں لگے ھوئے ہیں ہر روز اللہ کی پوشیدہ نعمتوں کو ڈسکور کرنے میں لگے ھوئے ہیں وہ تو پاگل ہیں پھر تو جو اللہ کی دی ھوئی عقل کا اسقدر استعمال کر رہے ہیں تاکے انسانیت کو راحت مل سکے، یہ جو اتنی بڑی بڑی بیماریوں کہ علاج ڈسکور کر رہے ہیں یہ لوگ یہ بغیر عقل کے ممکن ھے ؟ اللہ فرما رہے ہیں ہم نے ایسی کوئی بیماری نہیں دی جسکا علاج نہ رکھا ھو، تو یہ بیماریوں کا علاج بغیر عقل کے ہی دریافت ھو جاتا ھے ؟ گورے آج سیاروں سے معدنیات نچوڑ کے لانے کا سوچ رہے ہیں تو یہ سب کیا عقل کے بغیر ممکن ھے ؟ ہماری قوم تو پہلے ہی عقل کے استعمال کو کفر سمجھتی ھے آپ کیوں مزید ایسی باتیں کر کے اس قوم کی ذہنیت کو مزید زنگ لگانا چاہ رہے ہیں ؟ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی آج قوم کی یہ سوچ بن چکی ھے کہ عقل استعمال کر کے دشمن کے برابر آنے کی کیا ضرورت ھے آیت پڑھھ کے پھونک دو ڈرون خود ہی تباہ ھو کہ گر جائے گا۔ میرے بھائی اگر خود عقل استعمال نہیں کرنا چاہتے تو کم از کم دوسروں کو تو اسکی تلقین نہ کرو۔
ReplyDeleteارے بھائی !!! تو کرو عقل کا استعمال کس نے روکا ہے؟ ساری کائنات کو کھنگالیے ....مریخ پر زندگی تلاش کیجیے....دوسرے سیاروں سے معدنیات نچوڑیں، کائنات کے اسراروں سے پردہ اٹھائیے ...کس نے روکا ہے؟ ہم سب آپکے ساتھ ہیں. ....مگر خدارا عقل کے گھوڑے دین کے میدان میں نہ دوڑاؤ....سب جانتے ہیں کہ بازوق کا مقصد کیا ہے ...آپ خواہ مخواہ عقل کے ترجمان بن رہےہیں ...
ReplyDelete@ fikrepakistan :
ReplyDeleteبہت ممکن ہے کہ یہ میری غلط فہمی ہو ، لیکن مجھے آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ شائد آپ نے تحریر کو غور سے پڑھے بغیر ہی تحریر کے "عنوان" پر تبصرہ عرض فرما دیا ہے۔
حالانکہ میرے اپنے ناقص خیال میں اس تحریر کا "عنوان" بھی نہایت واضح ہے۔ عنوان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ "عقل" کا سراسر انکار کیا جا رہا ہو۔ ہاں "عقل" کی ایک limit ضرور بتائی جا رہی ہے۔
قرآن و سنت گواہ ہیں کہ انسانی عقل "لامحدود" نہیں بلکہ "وحی الٰہی" کی تابع ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا
جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اس کے بعد مومن مرد یا عورت کا کچھ اختیار باقی نہیں رہتا۔ (سورہ 33 - آیت:36)۔
یعنی اس کے بعد عقل کا استعمال حرام ہو جاتا ہے۔
حتیٰ کہ قرآن نے فرمانِ نبوی کے سامنے بھی عقل کے استعمال پر شدید پابندی لگا دی ہے ، ملاحظہ فرمائیے :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اگر وہ اپنے اختلاف میں رسول اللہ کو قاضی نہ بنائیں اور ان کا فیصلہ بلا چوں و چرا اور برضا و رغبت تسلیم نہ کریں تو وہ مومن ہو ہی نہیں سکتے۔ (سورہ 4 - آیت:65)۔
دو مثالوں پر غور فرمائیے :
1 :
قرآن میں نماز کی جتنی فضیلت و اہمیت بیان ہوئی ہے ، حتیٰ کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منسوب یہ فرمان بھی سب کے علم میں ہے کہ نماز ، ایک کافر اور مومن میں فرق کرتی ہے ۔۔۔ اس کے باوجود ایک حائضہ کو نماز کی تو چھوٹ دی گئی لیکن "روزہ" کی چھوٹ نہیں دی گئی (حائضہ کو قضا روزے کا حکم ہے)
اس پر مشہور تابعی ابو الزناد عبد الله بن ذكوان نے فرمایا تھا : مسنون اور شرعی احکام بسا اوقات رائے کے برعکس ہوتے ہیں لیکن مسلمانوں پر ان احکام کی پیروی کرنا لازم ہے ۔ انہی احکام میں سے ایک یہ بھی کہ حائضہ روزوں کی قضا ادا کرے ، لیکن نماز کی قضا ادا نہ کرے ۔ (بحوالہ صحیح بخاری)
2 :
عقل کہتی ہے کہ دادا کی جائیداد میں بیچارے یتیم پوتے کو یقیناً حق ملنا چاہئے جبکہ شریعت نے یتیم پوتے کے "حقِ وراثت" کا انکار کیا ہے۔
جزاک اللہ محترم - اللہ کرئے زور قلم اور۔ عقلیت پرستی اور جامد تقلید کے درمیان کی راہ معاذ بن جبل کی اجتہاد والی حدیث سے بخوبی مل جاتی ہے لیکن اس میں جو اصول طے کئے گئے وہ صاف ہیں کہ 'اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا' اور وہاں نا پایا تو 'رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا '، جب دونوں جگہ نا پایا تو قران و سنت کے مطابق اپنی رائے قائم کروں گا جس میں ظاہر ہے تفقہ و عقل کو بھی عمل دخل ہوگا لیکن یہ سب قران و حدیث کے فریمورک میں رہتے ہوئے ہوگا۔ نصوص قطعیہ پر یہ بات بلکل لاگو نہیں ہوتی اور جیسا کہ سید مودودی نے کہا 'ایمان اور ایسی طلب حجت جو تسلیم و اطاعت کے لیے شرط ہو‘ باہم متناقض ہیں اور ان دونوں کا اجتماع صریح عقل سلیم کے خلاف ہے۔ جو مومن ہے وہ اس حیثیت سے طالب حجت نہیں ہوسکتا اور جو ایسا طالب حجت ہے‘ وہ مومن نہیں ہوسکتا۔'
ReplyDeleteاسی موقع کے لئے اقبال نے کہا تھا کہ
بے خطر کود گیا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا لبِ بام ابھی
سُبحان اللہ ۔ اللہ جزائے خير دے اور ذہانت و توفيق ميں اضافہ کرے ۔ انسان کی بدقستی يہ ہے کہ جس کام کيلئے عقل عطا کی گئی وہاں تو کرتا نہيں اُلٹا عقل تفويض کرنے والے کے خلاف عقل استعمال کرنا شروع کر ديتا ہے
ReplyDeleteکبھی کسی نے علامہ صاحب کا جو شعر عدنان مسعود صاحب نے لکھا ہے ک مطلب سمجھنے کی کوشش کی ؟ يا پھر اس مصرع کی ؟
تدبير کے پر جلتے ہيں تقدير کے آگے
تدبير انسانی عقل ہے جو اللہ ہی نے تفويض کی ہے اور تقدير اللہ کی منشاء ہے
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
ReplyDeleteباذوق صاحب
ReplyDeleteجزاک ا للہ
جوابات کا فونٹ سائز کچھ بڑا اور رسم الخط نستعلیق ہو جائے تو یہ ایک احسان ہوگا!
خیر اندیش
عاطف مرزا
http://www.facebook.com/AtifMirza71
http://www.urdusukhan.com
http://www.facebook.com/groups/sukhanwarforum/