اماں کو میری بات ٹھیک سے سمجھ آگئی. اس نے اپنا چہرہ میری طرف کئے بغیر نئی روٹی بیلتے ہوئے پوچھا
" تو اپنی کتابوں میں کیا پیش کرے گا؟"
میں نے تڑپ کر کہا : " میں سچ لکھوں گا اماں اور سچ کا پرچار کروں گا. لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ہیں اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں. میں انھیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا."
میری ماں فکر مند سی ہو گئی. اس نے بڑی دردمندی سے مجھے غور سے دیکھا اور کوئیلوں پر پڑی ہوئی روٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا : " اگر تو نے سچ بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولنا ' دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا. ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے."
اشفاق صاحب کے ادبی قد کا احترام سر آنکھوں پر ۔۔ مگر وہ کیا ہے کہ ایک دفعہ مقبول مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے عرض فرمایا تھا :
مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ اس کی فاش سے فاش غلطی کے بارے میں بھی پڑھنے والے کو یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ ممکن ہے ، اس میں بھی تفنن کا کوئی لطیف پہلو پوشیدہ ہو ، جو غالباً موسم کی خرابی کے باعث اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ہم بھی اسی طرح کچھ کہنے کی جراءت کرنا چاہیں گے کہ کبھی کبھی کوئی نامور اور مقبول قلمکار بھی لکھتے لکھتے کوئی ایسی فاش غلطی بھی کر جاتا ہے جو اتفاقاً اس کے قلم کے رواں دواں موسم کی سنگینی کے سبب خود اس کی سمجھ سے دور ہو جاتی ہے۔ ورنہ ایک بندہ آخر اپنے بارے میں کتنا سچ بولے گا؟ اکیلی ذات کے سچ اور معاشرے کے کروڑوں نفوس کے سچ میں تعداد کا بھی فرق ہے کہ نہیں؟ اور اگر "اپنے ہی سچ" کے اس چکر میں یا دوسروں کے عیوب کی پردہ داری کی فکر میں ان کی غلطیوں کو بھی اپنے سر مونڈھ کر بیان کرنا درست ہے تو پھر یہ سچ نہیں بلکہ "جھوٹ" ہوا جبکہ جھوٹ جیسے فعل کی مذمت بھی اسی فقرے میں موجود ہے!
اسی طرح متذکرہ بالا اقتباس کے ایک فقرے پر تبصرہ کرتے ہوئے ہمارے قلمکار دوست یوسف ثانی صاحب لکھتے ہیں :
میرا خیال ہے کہ یہاں "دوسرے لوگوں" سے "عوام الناس" مراد ہیں، جو "انفرادی زندگی" جیتے ہیں۔ جن کے عیوب کی پرداہ داری کا حکم ہے۔
اس کے برعکس "عوامی حیثیت" کے حامل لوگ جو دوسروں پر کسی طرح بھی "اثر انداز" ہونے کی "اہلیت" رکھتے ہیں، ان سے متعلق سچ بولنا نہ صرف جائز اور ضروری بلکہ بسا اوقات فرض بن جاتا ہے۔ جابر سلطان کے سامنے "کلمہ حق" کہنا تو جہاد کے برابر ہے۔ یہ کلمہ حق ظاہر ہے، حکمران کی ذات سے متعلق وہ " بدنما سچ" ہوتا ہے، جسے حکمران اپنی رعایا سے چھپانا چاہتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلی جملہ خامیوں کا تعلق ایسے ہی "سچ" سے ہوتا، جسے سب کو بتلانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کوئی سرکاری اہلکار رشوت لیتا ہے، کوئی پولس والا مجرموں کی پشت پناہی کرتا ہے، کوئی وزیر قومی راز دشمنوں کو فروخت کرتا ہے، کوئی "دینی رہنما" دین کی غلط تشریح کرکے ملت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، کوئی پروڈیوسر، رائٹر شیاطین کے کاز کو پروموٹ کرنے والے ڈرامے تخلیق کرتا ہے، کوئی این جی او خد مت خلق کی آڑ میں اسلام دشمنی یا ملک دشمنی سے متعلق کسی خفیہ ایجنڈا کو دانستہ یا نادانستہ قوت فراہم کرتی ہے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ تو ایسے لوگوں سے متعلق اس"سچ" سے قوم کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
بلا کسی استثنیٰ کہ عوام کو یہ تلقین کرنا کہ "دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا" درحقیقت متذکرہ بالا اقسام کے سماج دشمنوں کو دانستہ یا نا دانستہ "پروٹیکشن" فراہم کرنا ہے۔
Jazak Allah
ReplyDeleteدرست فرمایا جناب یوسف ثانی نے۔۔۔
ReplyDeleteجناب میں بھی کچھ معزرت کے ساتھ آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی بھی یہ غلطی ہے کہ آپ نے اشفاق احمد کو فرشتہ سمجھ لیا کہ اُن سے غلطی نہیں ہوسکتی۔ انسان کو اپنی غلطیاں نظر نہیں آتیں لیکن وہ دوسروں کی غلطیاں ضرور تلاش کرتا رہتا ہے ۔ انسان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ غلطیاں کرے گا ۔ کیا آپ سے غلطیاں نہیں ہوتیں؟
ReplyDeleteمیں ایک بات کی یہاں وضاحت کردوں کہ اشفاق احمد کے میں نے ایک دو مضامیں ہی پڑھے ہیں اور دو تین پروگرام دیکھے ہیں جس سے میں نے ان کے عاجزانہ انداز میں ایک تکبرانہ مزاج پایاہے۔ مجھے اس بات کا بھی احساس کہ میری اس رائے سے شاید ہی کوئی اتفاق کرے ۔ ازور احمد
یہ کس نے کہا ہے کہ وہ فرشتہ تھے بس ایک غلطی کی نشاندہی کی گئ ہے
DeleteVery good blog mashallah, I really enjoyed it. Im looking forward to read more, your articles are very good. Im leraning urdu right now, and these texts help a lot.
ReplyDeleteBest regards
hmmm...buhat khoob...buhat acha laga yeah sab parh ker...
ReplyDeleteمجہے آپکی مندرجہ بالا تحریر بہت مفید معلوم ہوئی
ReplyDeleteبلا کسی استثنیٰ کہ عوام کو یہ تلقین کرنا کہ "دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا" درحقیقت متذکرہ بالا اقسام کے سماج دشمنوں کو دانستہ یا نا دانستہ "پروٹیکشن" فراہم کرنا ہے۔
اس ضمن میں گزاش ہے:
مگر اصلاحی ترتیب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے قریب کرکے انکی
اصلاح کی مئوثر کوشش
کریں ۔۔۔نہ کہ کڑوی باتیں کرکے لوگوں کی دل آزاری ۔۔۔ نفرتیں دوریاں پیدا کرتی ہیں۔ اللہ پاک
نے نرم گوئی کی تلقین سیدنا موسی و ہارون علیہم السلام کو فرمائی جو کہ فرعون جیسے جابر
کے سامنے کلمۃ الحق رکہنے چلے تہے۔۔۔۔مختصر بات یہ ہے۔۔۔مسلم کا ہر کام خوف خدا اور
نہج نبوت پر ہونا ضروری ہے
nice post sir
ReplyDeleteNice Post Romantic Poetry In Urdu
ReplyDelete