"سب کچھ پاکستان میں ہے"۔
تمام موسم ، تمام قدرتی نعمتیں ، معدنیات ، پھل ، پھول ، فطین ذہن ، ارفع خیال ، صاحبانِ حسن ، صاحبانِ جمال ، اصحابِ کمال ، صاحبانِ ثروت و مال اور غربت کے غم سے نڈھال ، لوٹنے والے ، لٹانے والے ، ظلم کرنے والے ، ظلم سہنے والے ، قانون بنانے والے اور اسے توڑنے والے ، ووٹ دینے والے اور ووٹ لینے والے ۔۔۔۔۔۔
جی ہاں ، سب کچھ پاکستان میں ہے !!
ہمارے ہاں قومی زبان اردو بولنے والے بھی ہیں جن کی 99 فیصد تعداد عوام میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح قومی زبان "اردو" سے کھلواڑ کرنے والے بھی ہیں جن کی 99 فیصد تعداد ذرائع ابلاغ کے مختلف شعبوں میں اپنا کام دکھا رہی ہے۔ وطن عزیز میں نجی چینل کسی "وبا" کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ان پر ناشتے ، ظہرانے اور عشائیے کے علاوہ شام کی چائے کے اوقات کے زیرعنوان پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہیں کیونکہ ایسے زیادہ تر پروگرام صرف دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں ، سننے کے نہیں !
ان چینلز نے بھانپ لیا ہے کہ نوجوانوں میں وہی پروگرام مقبول ہوتے ہیں جن میں "اینکرز" نہیں بلکہ "اینکرنیاں" ہوں۔
یہ وہ نت نئے ملبوسات پہنے ، دوپٹے کو درخور اعتناء نہ جانے ، کرسی پر بیٹھی ، شانے اچکاتی ، اور ریختہ کے بخیے ادھیڑتی نظر آتی ہیں کیونکہ وہ نہ صرف تن زیبی کے حوالے سے "متاثرینِ مغرب" میں شامل ہوتی ہیں بلکہ قومی زبان بولتے ہوئے بھی انہیں کچھ "کمتری" کا سا احساس ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اردو میں کچھ کچھ انگلش شامل کرنے کے بجائے انگلش میں کچھ کچھ اردو بول جاتی ہیں ۔۔۔۔ مثلاً ، ان کا مہمان اگر کوئی فنکار ہو تو اس سے سوال کچھ یوں کرتی ہیں کہ :
"آپ اس فیلڈ میں کیسے آئے ؟ آئی مین ! واز اِٹ یور اون ایمبیشن اور اے نیچرلی بیسٹوڈ گفٹ؟ ناظرین جاننا چاہیں گے"۔
حالانکہ ناظرین کی کم از کم 60 فیصد تعداد کو تو یہی پتا نہیں ہوتا کہ ان کی نمائیندگی کرتی ہوئی اس اینکرنی نے کیا سوال کیا ہے؟ اس دوران "کالر کی کال" بھی لی جاتی ہے اور وہ نہایت سفاکی سے "حقیقت" کا اظہار یوں کرتا ہے کہ :
"آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں"۔
ایسے میں ہر نوجوان یہی سوچتا ہے کہ کاش یہ "کالر" میں ہی ہوتا۔
جیسا کہ ہم نے کہا نا کہ "سب کچھ پاکستان میں ہے"
چنانچہ ایک جانب اگر ایسی "اینکرنیاں" اردو کا تیاپانچہ کر رہی ہیں تو دوسری جانب وطن سے بےحد محبت کرنے والی نستعلیق شخصیات بھی کم نہیں۔ ان میں وطنیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ لوگ انہیں "اردو میڈیم" کا "طعنہ" دیتے ہیں جسے وہ اعزاز سمجھتے ہیں۔ جب تک ایسے لوگ پاکستان میں موجود ہیں ، اردو پروان چڑھتی رہے گی ۔۔۔۔۔۔
حسبِ حال لکھا ہے ليکن اب تو عام آدمی ميں بھی يہ وباء پھيلتی جا رہی ہے
ReplyDelete"اور ریختہ کے نجیے ادھیڑتی نظر آتی ہیں"
درست کر ليجئے " نجیے" نہيں بخيے" ہونا چاہيئے
عام آدمی ہیں یہ وبا اس لیے پھیلتی جا رہی ہے کہ اکثریت کا اپنا کوئی معیار یا سوچ تو ہوتی نہیں۔ گھروں، دفتروں ، دکانوں میں چوبیس گھنٹے بیسیوں ٹی وی چینلز دیکھے جا رہے ہوتے ہیں۔ لوگ جو کچھ ان پہ دیکھتے ہیں اسی کی نقالی شروع کر دیتے ہیں اوراسی کو معیار زندگی بنا لیتے ہیں۔
ReplyDeleteعمدہ انتخاب!۔
ReplyDeleteآپ نے حقیقت حال بیان کی ہے اور خوب کی ہے
ReplyDeleteالسلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
ReplyDeleteباذوق بھائي، آپ نےخوب حقیقت بیان کی ہےدراصل ہماری قوم نقالی کےلیےبہت مشہورہےجیسادیکھتی ہےویساہی کرتی ہے۔
والسلام
جاویداقبال